فرانس: ریاستی جبر اور نسلی تعصب کے خلاف مزدور اور نوجوان صف آراء

30 جنوری کو گلوبل سیکورٹی بل، نام نہاد سیپریٹ ازم بل اور ثقافتی اداروں کی جاری بندش کے خلاف پیرس اور پورے فرانس میں بڑے مظاہرے منعقد ہوئے۔ ان مظاہروں کی قیادت ہزاروں نوجوان کر رہے تھے جو بظاہر لامتناہی جاری رہنے والی وباء کے عرصے میں مسلسل ریڈیکلائز ہو رہے ہیں (چونکہ کیمپس بھی بند ہیں) اور گلی سڑی میکرون حکومت کا مقابلہ کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

میکرون کو بڑھتے غم و غصے کا سامنا ہے۔ پہلے ہی کئی سالوں سے جاری پیلی واسکٹ تحریک اور مزدوروں کی ہڑتالوں نے اس کی ساکھ برباد کر کے رکھ دی ہے اور شدید نفرت کا شکار امراء کی یہ حکومت وباء اور اس کے تباہ کن معاشی اثرات اور حالیہ ویکسین پروگرام میں موثر فعالیت کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے عوام میں عمومی اور نوجوانوں میں بالخصوص بے چینی مسلسل بڑھ رہی ہے جو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا مستقبل تباہ وبرباد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

اس لئے میکرون ریاستی جبر میں مسلسل اضافہ کر تا جا رہا ہے اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اشتعال انگیز اور غیر جمہوری گلوبل سیکورٹی بل۔۔جسے LREM (میکرون کی پارٹی) میں موجود ممبران پارلیمنٹ کے ایک گروہ نے پیش کیا ہے۔۔قومی اسمبلی میں بغیر کسی ترمیم کے منظور ہو گیا ہے۔

سب سے زیادہ متنازعہ آرٹیکل 22 اور 24 ہیں۔ اول الذکر عوامی مقامات پر جاسوسی کے لئے ڈرونز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور بعد الذکر عوام کو ”کسی بھی پولیس والے یا فوجی پولیس کے دستے کے اہلکار کی دوران ’پولیس آپریشن‘ تصویر یا وڈیو بنانے، جس سے اس اہلکار کی شناخت ہو سکے اور جس کی تشہیر (سوشل میڈیا پر) کا مقصد اس اہلکار کی جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا ہو“ سے ممانعت کرتا ہے۔

آسان الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ عوام پولیس گردی کے واقعات کی تصاویر یا وڈیوز نہیں بنا سکتے جیسے حال ہی میں ایک سیاہ فام موسیقار پر اس کے اپنے ہی سٹوڈیو میں تشدد کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا۔ اس نئے قانون کی خلاف ورزی کی زیادہ سے زیادہ سزا 45 ہزار یورو جرمانہ اور ایک سال قید ہے۔ اسی بل میں پولیس افسران کو اپنے پاس ہر وقت ہتھیار رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے، خواہ وہ ڈیوٹی پر موجود نہ بھی ہوں تو۔

ریاستی جبر اور نسلی تعصب پر مبنی تقسیم نامنظور

گزشتہ موسمِ خزاں میں بڑے اور قابلِ ذکر احتجاجوں کے باوجود حکومت کا فیصلہ ہے کہ وہ قوانین منسوخ نہیں کرے گی۔ اس کی ایک وجہ ٹریڈ یونین قیادتوں کی مجرمانہ خاموشی بھی ہے جو ان رجعتی قوانین کی مخالفت میں ایک منظم طبقاتی جدوجہد کرنے کو تیار نہیں ہیں، اگرچہ عام ممبران میں اس حوالے سے شدید مخالفت موجود ہے۔

پولیس افسران کی تصاویر و وڈیوز بنانے کے حوالے سے آرٹیکل 24 کا ذکر سیپرٹزم بل میں بھی موجود ہے جس میں فرانس کی جمہوری اقدار کا ازسرِ نو اعاد ہ کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے میکرون نے کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کو جمہوریہ کا دشمن بنا کر دکھائے۔ اس قانون میں سزائیں اور بھی زیادہ سخت ہیں۔

میکرون اور نیشنل ریلی (سابق نیشنل فرنٹ) کی قائد میرین لی پین اس وقت صدارتی دوڑ میں برابر کی ٹکر میں ہیں اور یہ واضح ہے کہ میکرون لی پین سے زیادہ سخت گیر پوزیشن لے کر دوبارہ صدر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہفتے کے دن کا احتجاج فنی و ثقافتی شعبے (فنکاروں اور موسیقاروں وغیرہ) سے مدد کی پکار بھی تھا۔ چونکہ سینما، تھیٹر، میوزیم اور کنسرٹ ہال سخت حفظانِ صحت کے اصولوں کے تحت کچھ ہفتوں کے لئے کھولے گئے اور پھر بند کر دیئے گئے۔ پچھلے دو لاک ڈاؤنز میں فنکار اور ثقافتی مزدور بڑی مشکل سے زندہ رہے اور حکومت نے ان کی کوئی خاص مدد نہیں کی۔

اگرچہ مظاہرے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہوا لیکن اس طرح کے معاملات میں پولیس گردی ایک معمول بن چکی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ خاص طور پر پیلی واسکٹ تحریک، بلیک لائیوز میٹر، سٹوڈنٹ ڈیپری وی ایشن اینڈ فریڈم پروٹیسٹ میں دیکھنے کو ملا ہے۔ پھر جسمانی تشدد کے علاوہ سرگرم سیاسی کارکنان کو ”پبلک سیکورٹی کے لئے خطرہ“ کی فہرست میں شامل کرنے جیسے اقدامات اٹھا کر حکومت قانونی جبر کے ذریعے مخالفت کو کچلنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ، یورپی پارلیمان اور کمشنر فار ہیومن رائٹس آف دی کونسل آف یورپ نے فرانس میں منظم اور ناجائز تشدد کے حوالے سے ”خدشات“ کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ وہ یورپی یونین جو ان احتجاجوں کو کچلنے کے لئے میکرون کو گاڑیاں اور دیگر آلات مہیا کر رہا ہے وہی ”خدشات“ کا اظہار بھی کر رہا ہے۔

میکرون مستعفی ہو!

لیکن ان سرمایہ ادارانہ اداروں کے مگرمچھ کے آنسوؤں کے باوجود ریاستی جبر کے کوڑے نے عوام کو ڈرانے کی بجائے انہیں اور زیادہ لڑاکا کر دیا ہے اور اس وجہ سے ہم پچھلے چند سالوں سے مسلسل لڑاکا احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ صد افسوس کہ ٹریڈ یونین قیادت کے غلیظ کردار نے فرانسیسی عوام کو میکرون کا تختہ الٹنے سے روکا ہوا ہے۔

آمرانہ اور جابر ماحول میں فرانسیسی حکومت وباء کی بحرانی کیفیت کو اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ اس بداعتمادی اور غم و غصے کے ماحول میں فرانسیسی عوام میں ویکسین کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں جبکہ وباء کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات، جیسے شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو اور میٹرو پر ایک دوسرے سے بات پر ممانعت وغیرہ سے عوام شدید متنفر ہے۔ استحصال شدید تر کر کے اور ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کے اصول پر کاربند میکرون آگ سے کھیل رہا ہے۔ وہ فرانسیسی سماج میں پولرائزیشن کے عمل کو تیز تر کر رہا ہے اور نتیجتاً اس کی حکومت کے خلاف نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔