Urdu

کیا ہی نظارہ تھا۔۔۔جب ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہونے پر خبریں آنے لگیں کہ میکرون صدارتی انتخابات جیت چکا ہے۔ وہ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر پیرس کی گلیوں میں چل رہا تھا، ان کا ساتھ نوجوانوں کا ایک گروہ بھی دے رہا تھا، یہ تاثر دینے کے لیے کہ آنے والی نسلیں بھی اس کی حمایت کریں گی۔ اور اپنی تقریر میں اس نے اعلان کیا کہ وہ مزید ”امیدوار“ نہیں رہا بلکہ ”تمام فرانسیسیوں کا صدر“ بن چکا ہے۔ یہ سب باتیں ان فرانسیسی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی اکثریت کو کتنی کھوکھلی معلوم ہوئی ہوں گی جنہوں نے اسے ووٹ نہیں دیا اور اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

تھیسالونیکی میں یونانی ریل کمپنی ”ٹرینوز“ کے مزدوروں نے الیگزینڈروپولی کی بندرگاہ سے نیٹو ٹینکوں کو یوکرین لے جانے میں مدد کرنے سے انکار کرکے مالکان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ درج ذیل بیان عام ہڑتال کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے 5 اپریل 2022ء کو یونانی زبان میں لکھا گیا تھا۔

6 اپریل کو یونان بھر سے لاکھوں محنت کشوں نے جنرل کنفیڈریشن آف گریک ورکرز (جی ایس ای ای) اور سول سرونٹ کنفیڈریشن (اے ڈی ای ڈی وائے) کی کال پر 24 گھنٹے کی عام ہڑتال میں حصہ لیا۔ 70 سے زائد شہروں میں نکالی گئی ہڑتالی ریلیوں میں بے روزگار شہریوں اور نوجوانوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

فرانس کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا نتیجہ میکرون کی خواہش کے مطابق آیا ہے، جس کی تیاری وہ لمبے عرصے سے کر رہا تھا۔ 2017ء میں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں میکرون نے میری لی پین کے مقابلے میں 66 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے اُس وقت پہلے مرحلے میں میلنشون یا ہامن کو ووٹ دیے تھے، دوسرے مرحلے میں ”انتہائی دائیں بازو“ کا راستہ روکنے کے لیے متحرک ہوگئے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے ریاست کا سربراہ یہ صورتحال دہرائے جانے کا خواہاں رہاہے۔

ان دنوں سری لنکا میں 1953ء کی ہڑتال کے بعد کی سب سے شاندار جدوجہد جاری ہے۔ اس جدوجہد کی طاقت نے کابینہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت کے اتحایوں نے پارلیمان میں اپنی غیر جانب داری کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی اثنا ء میں مرکزی بنک کے گورنر کیبرال نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔

کام کے ناقابلِ برداشت حالات اور کم اجرتوں کے خلاف 31 جنوری سے دہلی سٹیٹ آنگن وادی ورکرز اینڈ ہیلپرز یونین (ڈی ایس اے ڈبلیو ایچ یو) کے ممبران کی ہڑتال جاری ہے۔ ان کی شاندار جدوجہد پورے بھارت کے محنت کشوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

اس عہد میں پوری دنیا بحران کی زد میں ہے۔ سرمایہ داری اور اس کے معذرت خواہان محنت کش طبقے کو درپیش مسائل کی وضاحت یا حل کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف مارکسزم کے نظریات ہی ان مسائل کے حل کا لائحہ عمل پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں عالمی مارکسی یونیورسٹی 2022ء کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ یہ ایک چار روزہ آن لائن پروگرام ہے جس کا اہتمام عالمی مارکسی رجحان نے کیا ہے، جس کا مقصد مارکسزم کے بنیادی نظریات اور ان کے ذریعے دنیا کی تبدیلی پر مفصل بحث کرنا ہے۔

ہمیں ماسکو میں کومسومول (روسی کمیونسٹ پارٹی کا یوتھ ونگ) کے اندر یوکرائن جنگ کے سوال پر ہونے والی سیاسی جدوجہد کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ پارٹی قیادت کے آفیشل شاؤنسٹ مؤقف سے اختلاف کرنے کے جرم میں مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) کے حامیوں اور دیگر کو برطرف کیا جا چکا ہے۔

چین میں ایک ویڈیو فوٹیج سامنے آنے کے بعد 28 جنوری 2022ء سے پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ ویڈیو میں جیانگسو کے شہر شوزو میں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے جسے آٹھ بچے پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو دراصل دیہی علاقوں میں غریبوں کے لیے شاندار خیراتی کام فلمانے کے ارادے سے بنائی جا رہی تھی۔

ایک شہرہ آفاق جملہ ”میں آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں لیکن میں اس بات کو کہنے کے لئے آپ کے حق کا موت تک دفاع کروں گا“ فرانسیسی فلسفی والٹیئر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس نے الفاظ کہے یا نہیں یہ علیحدہ بحث ہے لیکن ان الفاظ کو بہرحال حقِ اظہارِ رائے کے اصول کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ میں سب سے پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ یوکرائن میں روس کی عسکری مداخلت میں بھی یہی ہوا ہے۔ مارکس وادیوں کو جھوٹ اور جنگی پروپیگنڈے کی زہریلی دھند میں اس جنگ کے حقائق کا تجزیہ کرنا ہے، اس کے محرکات کو سمجھنا ہے اور جنگ میں شامل مختلف پارٹیوں کے بہانوں اور جواز میں چھپے حقیقی مفادات کو جاننا ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں یہ سارا کام عالمی محنت کش طبقے کے مفادات کے ضمن میں کرنا ہے۔

برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما، ’سر‘ کیئر سٹارمر کی جانب سے نیٹو کی تعریف میں خط لکھا گیا ہے جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کو متاثر کرنا اور لیفٹ کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ مغربی سامراج پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے مزدور تحریک کو سوشلسٹ بین الاقوامیت کے لیے لڑنا ہوگا۔

یوکرائن میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے ہمیں ایلن ووڈز (’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ کے مدیر) آگاہ کر رہے ہیں۔ روس کی جارحیت کے آغاز سے مغربی میڈیا مسلسل غلیظ پروپیگنڈہ کر رہا ہے جس سے خوف و ہراس کی بھیانک فضا قائم ہو رہی ہے اور اب اخبارات تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ سامراجی قائدین ”یوکرائن کی قومی خودمختاری کی پامالی“ پر تعفن زدہ منافقت کا اظہار کرتے ہوئے پیوٹن کی ملامت میں مصروف ہیں۔ یہ وہی گھناؤنے قاتل ہیں جو ماضی میں اپنے مفادات کیلئے جنگ کو سفاک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ مارکس وادیوں کو ہر ملک میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے منافقت زدہ سفاک ”حب الوطنی“

...

فرانسیسی صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 10 اپریل کو منعقد کرایا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر امیدوار کون ہوں گے، مگر یہ پیشگوئی کرنا نا ممکن ہے کہ دوسرے مرحلے تک ان میں سے کون کون پہنچیں گے۔

بالآخر امکان حقیقت میں بدل چکا ہے۔ روسی افواج نے یوکرائن پر دیو ہیکل حملہ کر دیا ہے۔ علی الصبح ٹی وی پر ایک مختصر خطاب میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک ”خصوصی فوجی آپریشن“ کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے چند منٹوں بعد یوکرائن میں صبح 5 بجے دارلحکومت کیف سمیت بڑے شہروں کے قریب دھماکے سنائی دیئے۔