Urdu

حالیہ دنوں میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان معاہدے نے عالمی تعلقات میں ایک اور بحران کو جنم دے دیا ہے۔ نئے معاہدے پر فرانس نے عارضی طور پر واشنگٹن سے اپنا سفیر بلا لیا اور چین نے شدید احتجاج کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاقت کے عالمی کھلواڑ میں سب اس معاہدے سے نالاں ہیں۔ لیکن یہ معاہدہ محض سامراجی قوتوں کی نئی وسیع صف بندی میں ایک اور اضافی قدم ہے۔

لاکھوں دستاویزات پر مشتمل 2.94 ٹیرا بائیٹس کا ڈیٹا لیک ہونے کے باعث 100 سے زائد ارب پتی، عالمی قائدین اور سرکاری عہدیداران کے بیرونِ ملک معاہدے اور اثاثے بے نقاب ہوئے ہیں۔ اس ڈیٹا سے حکمران طبقے کی دیوہیکل خونخواری کا پردہ چاک ہوا ہے، جن کی تقریباً 5.6 سے لے کر 32 ٹریلین امریکی ڈالر تک دولت بیرون ممالک میں موجود ہے۔

برطانیہ بھر میں پٹرول کی قلت، اور سڑکوں پر ٹریفک جام دیکھنے کو مل رہا ہے، جبکہ ٹوری حکومت ایک کے بعد دوسرے بحران میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ منڈی کا انتشار محنت کشوں کی زندگی کو بھی افراتفری کا شکار کر رہا ہے۔ سماجی دھماکے کیلئے درکار سارے آتش گیر مواد تیاری کے عمل میں ہیں۔

16 ستمبر سے یونیورسل الیکٹرک اپلائنس کمپنی کے 2500 سے زائدفیکٹری مزدور دارالحکومت قاہرہ کے قریب 6 th آف اکتوبر سٹی انڈسٹریل زون میں ولولہ انگیز ہڑتال کئے ہوئے ہیں۔ براہ کرم یہ اپیل پڑھیں اور ہمارے اس یکجہتی کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔

پچھلے دو ماہ میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سخت اقدامات نے پورے سماج کو حیران کر دیا ہے اور افواہوں کا بازار گرم ہو چکا ہے۔ ریاست نے کئی بڑی نجی کمپنیوں پر سخت نظم و ضبط لاگو کر دیا ہے اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر بھی وسیع ضابطوں کا اطلاق کر دیا ہے۔ ان اقدامات کے پیچھے کارفرما وجوہات کا خوفناک احاطہ ایک گم نام بلاگ پوسٹ میں کیا گیا جسے تمام بڑے ریاستی میڈیا اداروں نے بہت زیادہ پھیلایا۔ ”ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے کہ ایک گہری تبدیلی کا عمل جاری ہے!“۔ لیکن کیا واقعی سی سی پی ریاست ایک سماجی تبدیلی کی قیادت کر رہی ہے؟ یا پھر ان اقدامات کا

...

بھگت سنگھ کی 114ویں سالگرہ کے موقع پر طلبہ و نوجوانوں کی ملک گیر تنظیم پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے بھگت سنگھ کی سیاسی زندگی کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم ریلیز کی گئی ہے۔ اس دستاویزی فلم میں عالمی مارکسی رجحان کے رہنما آدم پال نے لاہور میں بھگت سنگھ سے منسوب مقامات کے تاریخی پسِ منظر، بھگت کے سیاسی سفر اور آج کے نوجوان انقلابیوں کے لیے اس کے اسباق پر روشنی ڈالی۔

کرونا وباء کے باعث ماحولیاتی بحران پر لوگوں کی توجہ کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ البتہ اس کے شدید اثرات اب بھی جاری ہیں۔ آج ہم ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج بھگت رہے ہیں، جبکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ خصوصاً اس سال، دنیا بھر کے مختلف خطوں کو خشک سالی نے متاثر کیا ہے جو تباہ کن مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔

3 ستمبر بروز جمعہ جاپان کے وزیرِ اعظم یوشی ہیدے سوگا نے اعلان کیا کہ وہ اس ماہ اپنی سیاسی پارٹی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کی قیادت کے لئے ہونے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے گا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ وزیرِ اعظم بننے کے بمشکل ایک سال بعد ہی منصب سے دستبردار ہو رہا ہے۔ لیکن جاپانی سرمایہ داری کے عمومی بحران کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ سوگا کے سیاسی کیریئر کے ساتھ، پچھلی ایک دہائی میں جاپانی حکمران طبقے کی کوششوں سے قائم کردہ نسبتاً سیاسی استحکام بھی ختم ہو رہا ہے۔ جاپان میں سیاسی عدم استحکام کا ایک نیا عہد طلوع ہو رہا ہے۔

ہم ”فلسفے کی تاریخ: ایک مارکسی تناظر“ کتاب کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہ کتاب سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی لڑائی لڑنے والے آج کے انقلابیوں کے لیے ایک اہم نظریاتی ہتھیار ثابت ہوگا۔ اس کی آن لائن تقریبِ رونمائی 18 ستمبر کو (پاکستانی وقت کے مطابق) رات 8 بجے ہوگی، جس میں کتاب کا مصنف ایلن ووڈز اس کے اوپر روشنی ڈالیں گے۔ آپ اس آن لائن تقریب میں شرکت کرنے کے لیے خود کو رجسٹر کر سکتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے آپ اسے خصوصی رعایت پر آرڈر بھی کر سکتے ہیں۔

ہم ”فلسفے کی تاریخ: ایک مارکسی تناظر“ کتاب کی اشاعت کا اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ یہ کتاب سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی لڑائی لڑنے والے آج کے انقلابیوں کے لیے ایک اہم نظریاتی ہتھیار ثابت ہوگا۔ اس کی آن لائن تقریبِ رونمائی 18 ستمبر کو (پاکستانی وقت کے مطابق) رات 8 بجے ہوگی، جس میں کتاب کا مصنف ایلن ووڈز اس کے اوپر روشنی ڈالیں گے۔ آپ اس آن لائن تقریب میں شرکت کرنے کے لیے خود کو رجسٹر کر سکتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے آپ اسے خصوصی رعایت پر آرڈر بھی کر سکتے ہیں۔

15 جولائی سے، ایران کے صوبہ خوزستان میں پانی کی قلت کے خلاف ہونے والے احتجاجوں نے ایک طاقتور مقامی تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے، جو اب صوبے کے تمام اہم شہروں تک پھیل چکی ہے، جن میں شوش، سوسنگرد، ایذہ، دزفول، کوت عبداللہ، وایس، ماھشھر، حمیدیہ، چمران اور اھواز کے کئی علاقے شامل ہیں۔ حکومت نے مارشل لاء کا اعلان کر دیا ہے، مگر اس نے احتجاجوں کو روکنے کی بجائے مزید 16 صوبوں کے اندر احتجاجوں کو اشتعال دے دیا ہے۔

امریکی اور اتحادی افواج کے دو دہائیوں پر محیط خونی قبضے کے بعد انخلا کے ساتھ ہی افغانستان انتہائی تیزی سے ایک اور خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق سامراجی فوجوں کا انخلا 31 اگست تک مکمل ہو جائے گا، اگرچہ امریکی افواج کی بڑی اکثریت یا تو پہلے ہی ملک چھوڑ کر جا چکی ہے یا جلد بازی میں ملک چھوڑ کر رفو چکر ہونے کے عمل میں ہے جبکہ دوسری جانب کئی علاقوں میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے۔

پچھلے دو مہینوں سے ترک ریاست اور اردوگان کو ایک عجیب و غریب ذریعے سے حملوں کا سامنا ہے۔ جرائم کی دنیا میں طویل ریکارڈ رکھنے والا اور حیران کن طور پر انتہائی کم سزا یافتہ ایک بدنامِ زمانہ جلا وطن مافیا ڈان سعادات پیکر پچھلے دو مہینوں سے ہر اتوار کو ایک ویڈیو جاری کر رہا ہے جس میں وہ اہم AKP پارٹی (اردوگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) نمائندگان، ترک ریاست اور منظم جرائم کے درمیان گٹھ جوڑ کے راز افشاں کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔

عالمی مارکسی رجحان اپنے نظریاتی میگزین ’مارکسزم کے دفاع میں‘ کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ جاری کرنے کا فخریہ اعلان کرتا ہے۔ متعدد زبانوں میں اس کے تراجم کیے جاتے ہیں، جسے دنیا بھر سے قارئین سبسکرائب کر کے سال میں چار مرتبہ اپنے گھر کی دہلیز پر حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ ہمارے ڈیجیٹل ایڈیشن کو بھی سبسکرائب کر سکتے ہیں، جس کی سافٹ کاپی آپ کو ای میل پر موصول ہو جائے گی۔ یہ میگزین 16 جولائی سے دستیاب ہوگا مگر آپ آج ہی اسے سبسکرائب کر سکتے ہیں!

18 جون کو اسلامی جمہوریہ ایران نے صدارتی انتخابات منعقد کروائے، جن کا وسیع پیمانے پر عوامی بائیکاٹ کیا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، جس میں ریاست کے چہیتے امیدوار رئیسی کو 61.9 فیصد ووٹ پڑے، جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد یعنی 12.8 فیصد بلینک ووٹوں (جس میں احتجاجاً کوئی بھی نمائندہ منتخب نہیں کیا جاتا) کی رہی۔ بہرحال حقیقی ٹرن آؤٹ اس سے بھی کم ہونے کا امکان ہے، جو کچھ اندازوں کے مطابق 25 سے 35 فیصد رہا۔ اطلاعات کے مطابق بعض پولنگ اسٹیشن بالکل خالی پڑے رہے۔ یہ انتخابات محض ایک دکھاوا تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے کم ترین ٹرن آؤٹ اور بلینک ووٹوں کی سب سے بڑی تعداد دیکھنے کو ملی۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں دیکھنے کو ملا جب ہڑتالوں

...