|تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: ولید خان|

اس وقت پوری دنیا کی توجہ یوکرین جنگ پر مرکوز ہے لیکن بحر الکاہل میں امریکہ اور چین کے درمیان اسی اہمیت سے بھرپور ایک اہم ٹاکرا شدت اختیار کر رہا ہے جس کا ایک ہی ہدف ہے کہ اس اہم خطے میں کس ملک کا تسلط ہو گا؟ درحقیقت اس وقت امریکی خارجہ پالیسی کا سارا محور بڑھتے چینی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

سال 1989ء میں عالمی معیشت صحت مند تھی اور کئی بڑے کھلاڑیوں کی جگہ موجود تھی۔ امریکہ، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت 21 ممبر ممالک نے ایشیا-پیسفک اکنامک کوآپریشن گروپ لانچ کیا جس میں بعد میں روس اور چین بھی شامل ہو گئے۔ یعنی جس بھی ملک کا ساحل بحرالکاہل سے ملحق تھا وہ اس گروپ میں شامل تھا۔

اس وقت سوویت یونین جان لیوا بحران کا شکار تھا، اس کے زیرِ اثر تمام مشرقی یورپی ممالک میں یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہو رہی تھیں، پرانا نظام تباہ و برباد ہو رہا تھا اور سرمایہ داری کی طرف سفر تیزی سے جاری تھا حتیٰ کہ دو سال بعد خود سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ چین ترقی کی منازل طے کر رہا تھا لیکن موجودہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت بننے سے ابھی دہائیوں دور تھا۔ اس وقت چین کے پاس سستا ہنر مند محنت کش طبقہ اور بے پناہ منافع کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع موجود تھے اور کئی عالمی اجارہ داریوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین میں دیو ہیکل سرمایہ کاری کی۔

عمومی امریکی زوال اور چین کا اُبھار

آج دنیا بدل چکی ہے۔ آج بھی امریکہ دنیا کا طاقتور ترین سامراج ہے۔ لیکن بہرحال امریکہ ایک طویل عرصے میں زوال پذیری کی اہم منازل طے کر چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد آج عالمی معیشت میں امریکی اثرورسوخ کم ہو چکا ہے۔ سال 1945ء میں امریکہ عالمی جی ڈی پی (کل مجموعی پیداوار) میں 50 فیصد سے زیادہ کا حصہ دار تھا۔ سال 1960ء میں یہ شرح گر کر 40 فیصد تک پہنچ چکی تھی لیکن سال 1980ء تک صورتحال 25 فیصد تک پہنچ گئی۔ سال 2000ء میں عالمی جی ڈی پی میں حصہ داری 30 فیصد ہو گئی لیکن اس وقت سے اب تک یہ 24 فیصد پر کھڑی ہے۔ دوسری طرف سال 1980ء میں عالمی جی ڈی پی میں چین کا 1.28 فیصد حصہ تھا جو بڑھ کر سال 2013ء میں 10 فیصد اور آج 15 فیصد ہو چکا ہے۔

زیادہ مضبوط معیشت کے ساتھ چین عالمی سٹیج پر ایک اہم کھلاڑی بن چکا ہے اور اب وہ دنیا کے مختلف حصوں، خاص طور پر جنوب مشرق ایشیا اور بحرالکاہل میں روایتی امریکی تسلط کو چیلنج کر رہا ہے۔ اس کا ثبوت واضح طور پر بحرالکاہل میں موجود وہ مختلف ممالک جو جزائر ہیں، کے ساتھ چین کی مختلف سیکورٹی اور تجارتی معاہدوں کی کوششوں میں دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے ایک سولومن جزائر کے ساتھ معاہدہ حالیہ خبروں کی زینت بھی بنا رہا ہے۔

دنیا کی دوسری بڑی عالمی معیشت بننے کے بعد اب چین دنیا کے 150 سے زیادہ ممالک میں دیو ہیکل سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ چینی گلوبل انوسٹمنٹ ٹریکر کے مطابق ”سال 2005ء سے اب تک چین بیرونی سرمایہ کاری اور تعمیرات کی مد میں 2.2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ سرمایہ خرچ کر چکا ہے“۔ یہ رقم سال 2020ء کے آخر تک 6.15 ٹریلین امریکی سرمایہ کاری کا ایک تہائی بنتی ہے۔

لیکن ویب سائٹ statista.com کے مطابق ”سال 2020ء میں امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) کر رہا تھا جو تقریباً 8.1 ٹریلین ڈالر بنتا ہے۔ جبکہ چین اس سے بہت دور 2.4 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا“۔

ان اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کی مجموعی بیرونی سرمایہ کاری امریکہ کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے ایک تہائی کے درمیان ہے اور اس کا کل حجم اٹلی کے کل جی ڈی پی کے برابر ہے۔ اٹلی اس وقت دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی معیشت ہے اور G7 کا حصہ ہے۔

لیکن مندرجہ بالا اعدادوشمار مکمل تصویر نہیں ہیں۔ اس وقت 2 ٹریلین ڈالر کے قریب بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ ہانگ کانگ دنیا کی ساتویں سب سے بڑی معیشت ہے اور اب اس پر چینی تسلط مکمل ہو چکا ہے۔ ان میں سے 1.2 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری چین میں ہوئی ہے لیکن 0.8 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری دنیا کے دیگر ممالک میں ہوئی ہے اور اس طرح چین کی کل عالمی سرمایہ کاری 3 ٹریلین ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔ ہم اس تصویر کا کوئی بھی رُخ دیکھ لیں، اگرچہ امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور سامراج ہے لیکن چین اپنے جی ڈی پی میں اضافے کے متوازی دنیا کا دوسرا بڑا سرمایہ کار بن چکا ہے۔

چین بھاری مقدار میں قرضے بھی دے رہا ہے۔ ہارورڈ بزنس ریویو کے مطابق ”پچھلی دو دہائیوں میں چین ایک بڑا عالمی قرض دینے والا ملک بن چکا ہے اور اب اس کے واجب الادا کل قرضہ جات عالمی جی ڈی پی کے 5 فیصد سے بڑھ چکے ہیں“۔ اس میں مزید لکھا ہے کہ ”مجموعی طور پر چینی ریاست اور اس کے ذیلی اداروں نے پوری دنیا کے 150 ممالک کو براہِ راست اور تجارتی قرضہ جات کی مد میں 1.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ قرضہ دیا ہے۔ اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا سرکاری قرض خواہ بن چکا ہے جس کا کل حجم روایتی سرکاری قرض خواہ جیسے عالمی بینک، آئی ایم ایف یا تمام OECD قرض خواہ حکومتوں سے بڑھ چکا ہے۔“

یہی وجہ ہے کہ چینی گلوبل انوسٹمنٹ ٹریکر نے تبصرہ کیا ہے کہ ”امریکی اور کچھ دیگر ممالک چینی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات کا شکار ہیں“۔ اس دیو ہیکل عالمی رسائی کے ساتھ چینی ریاست میں تجارتی راستوں، خام مال کے وسائل اور سیکورٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی خواہش کا بڑھنا فطری عمل ہے۔

چین بحرالکاہل میں

یہ حقیقت دنیا کے کئی حصوں میں اب واضح ہو چکی ہے۔ شمالی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے علاوہ چینی سرمایہ کاری اس وقت لاطینی امریکہ سے افریقہ اور ایشیا سے بحر الکاہل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس مضمون میں بحرالکاہل کو ہی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

اس وقت چین بحرالکاہل میں وسائل کی سب سے زیادہ لوٹ مار کر رہا ہے۔ سال 2019ء میں اس علاقے کی آدھی سمندری غذا، لکڑی اور معدنیات (3.3 ارب ڈالر) چین کے حصے میں آئیں۔ اس کے متوازی اس وقت بحرالکاہل میں ایک تہائی تجارتی بحری جہاز چینی ہیں۔ اس وقت خطے میں 290 چینی تجارتی جہاز موجود ہیں جو بحرالکاہل میں موجود تمام ممالک کے بحری تجارتی بیڑوں سے زیادہ ہیں۔

پاپوا نیو گینی اور سولومن جزائر کی 90 فیصد لکڑی اور سولومن جزائر کے تمام قدرتی وسائل کا 90 فیصد چین لے جاتا ہے۔ پاپوا نیو گینی اپنی رامو کان سے چین کو نِکل (Nickel) بھی فراہم کر رہا ہے۔ کچھ اسی قسم کی کیفیت وانواتو، ٹونگا اور پالاو کی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں مجموعی طور پر چینی کمپنیوں نے 2 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری بحرالکاہل کی کان کن صنعت میں کی ہے۔

یہ واضح ہے کہ اس خطے کی چین کے لئے کلیدی اہمیت ہے۔ اس وجہ سے چین مختلف ممالک کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے۔ اس کا آغاز پچھلے سال اپریل میں سولومن جزائر کے ساتھ ایک پانچ سالہ سیکورٹی معاہدے کے ساتھ ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد خطے میں اولین تسلط قائم کرنا ہے۔

اس معاہدے کے تحت چین سولومن جزائر کی اندرونی سیکورٹی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ چینی پولیس جزیرے پر مقامی پولیس کی فساد کش ٹریننگ بھی کر چکی ہے۔ جزیرے کی حکومت کو دیو ہیکل عوامی غم و غصے کا سامنا ہے اور عوامی احتجاجوں کو سختی سے کچلا گیا ہے۔ مستقبل میں یہ صورتحال دوبارہ پیدا ہو گی۔ لیکن چین ان معاملات سے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔

سولومن جزائر آسٹریلیا کے قریب ہیں اور اس طرح انہیں امریکی اثرورسوخ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر چین ان جزائر پر کوئی بحری اڈہ بناتا ہے (اگرچہ اس حوالے سے تردید کی جاتی ہے) تو امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان بحری تجارتی راستے براہ راست خطرے کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ پوزیشن اس حوالے سے بھی اہم ہو گی اگر مستقبل میں چین تائیوان پر فوج کشی کا منصوبہ بناتا ہے کیونکہ اس کے بعد امریکہ اور چین کے درمیان براہ راست یا بلا واسطہ فوجی تصادم ناگزیر ہو جائے گا۔ سولومن جزائر کی موجودہ حکومت نے سال 2019ء میں تائیوان سے سفارتی تعلقات ختم کر کے چین کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے تھے جس سے آنے والے وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لیکن بحرالکاہل میں چین کے مفادات سولومن جزائر تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اب وہ ایک ایسا معاہدہ تیار کر رہا ہے جس میں بحر الکاہل کے درجن سے زیادہ جزائر پر مشتمل ممالک شامل ہوں گے۔ اس وسیع مفادات پر مبنی معاہدے میں پولیس، سیکورٹی، ڈیٹا کمیونیکیشن اور تجارت شامل ہیں۔ اگر چین یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پورے خطے میں اس کا اثر ورسوخ دیو ہیکل ہو جائے گا۔

معاہدہ مکمل کرنے کی کوششوں میں چین کے وزیرخارجہ وانگ یی نے مئی کے آخر میں فیجی میں ایک میٹنگ کی میزبانی کی۔ اس قدم کے بعد پورے خطے سمیت دور دور تک خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئیں۔ فیڈریٹڈ سٹیٹس آف مائکرونیشیا (FSM) کے صدر ڈیوڈپانویلو نے کھل کر کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت ایک نئی ”سرد جنگ“ شروع ہو جائے گی جس میں چین مغرب اور خاص طور پر آسٹریلیا، جاپان، امریکہ اور نیوزی لینڈ کے مدمقابل ہو گا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ FSM کا امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ ہے جس کے تحت وہ خطے میں امریکی مہرے کا کردار ادا کر رہا ہے۔

کریباتی نے سال 2019ء میں تائیوان کے برعکس چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور اب چین اس کے ساتھ بھی ایک علیحدہ معاہدہ تیار کر رہا ہے۔ کریباتی کے ساتھ معاہدہ سولومن جزائر کی طرز پر ہو گا۔ اس دوران چین نے وانواتو کے ساتھ ایک کنٹریکٹ کیا ہے جس کے تحت سانتو جزیرے پر پیکوا ایئرپورٹ کی توسیع کی جائے گی۔ ساموا نے بھی چین کے ساتھ ایک دوطرفہ معاہدہ کیا ہے جس میں دیگر معاملات کے علاوہ ”امن اور سیکورٹی“ بھی شامل ہیں اور چین اس چھوٹے سے ملک کو انفراسٹرکچر تعمیر کر کے دے گا۔ ایک چینی وفد مسلسل فیجی، ٹونگا، وانواتو، پاپوا نیو گینی، ایسٹ تیمور اور دیگر جزائر کے دورے کر رہا ہے۔

ایک طرف چین بحرالکاہل میں اپنی معاشی اور سیکورٹی پوزیشن کو مستحکم کر رہاہے تو دوسری طرف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کی تجارت امریکہ کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے اور وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے خطے میں مزید اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔

ان تمام اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ نے حال میں مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے معاملات پر معمور امریکی سیکرٹری ڈینیل کریتنبرنک کی سربراہی میں ایک سفارتی وفد سولومن جزائر بھیجا ہے۔ امریکہ نے یہ دھمکی بھی لگائی ہے کہ اگر چین ان جزائر پر کسی قسم کی عسکری موجودگی کی کوششیں کرے گا تو امریکہ عسکری جواب دے گا۔ آسٹریلیا کی نئی وزیر خارجہ پینی ونگ نے حال ہی میں فیجی کے دورے کے دوران خطے میں چینی اقدامات پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

بالآخر مئی کے اختتام پر چین کے زیر انتظام دس ممالک کی میٹنگ نے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی بھی فیصلہ موخر کر دیا جائے اور وانگ نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ اتفاق رائے کے لئے مزید مذاکرات درکار ہیں۔ یہ واضح ہے کہ یہ چھوٹی اقوام دو سامراجی قوتوں کی کشمکش کا دباؤ محسوس کر رہی ہیں اور کسی ایک کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتیں۔ لیکن ہم نے سولومن جزائر جیسے ممالک میں دیکھا ہے کہ اب چین مرکزی تجارتی طاقت بن چکا ہے اور اس کے ساتھ قریبی سفارتی اور سیکورٹی تعلقات بھی بن رہے ہیں۔

بائیڈن کی کوششیں

خطے میں چین کی تیز رفتار پیش قدمی سے گھبرا کر بائیڈن نے کچھ انڈو-الکاہل ممالک کے ساتھ معاشی معاہدے کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے جس پر چینی حکومت شدید نالاں ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ پچھلے سال AUKUS (آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان ایک نیا سیکورٹی معاہدہ جس کے تحت امریکہ آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں فراہم کرے گا جن کا واضح نشانہ چین ہے) معاہدے کی طرز پر دیگر معاہدے کر کے اپنی عسکری پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔

23 مئی کو ٹوکیو میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں انڈو-پیسی فِک اکنامک فریم ورک فار پراسپیرٹی کو لانچ کیا گیا۔ یہ بائیڈن کی کوشش ہے کہ چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرتے ہوئے خطے کے ایک درجن ممالک کو اکٹھا کیا جائے۔ انڈیا، ویتنام، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن نے مذاکرات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور اور ملیشیا کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ اس امریکی معاہدے کے تحت ڈیجیٹل تجارت اور تجارتی سہولت، صاف توانائی اور فضائی کاربن میں کمی، سپلائی چینز، کرپشن اور ٹیکس کے معاملات کو دیکھا جائے گا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جن ممالک کو بائیڈن بہلانے پھسلانے کی کوششیں کر رہا ہے ان میں سے زیادہ تر نے ریجنل کمپری ہینسیو اکنامک پارٹنر شپ کے تحت چین کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں۔ درحقیقت اس خطے میں عالمی تعلقات میں دراڑیں واضح ہو چکی ہیں جن میں ایک طرف دنیا کا سب سے طاقتور سامراج امریکہ اور دوسری طرف اُبھرتی قوت چین آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔

چین کی بڑھتی عسکری طاقت

ایک مخصوص مرحلے پر بڑھتی معاشی قوت کے متوازی عسکری قوت کا اُبھرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ عسکری اخراجات کی فہرست میں امریکہ سالانہ اگلے نو ممالک کے خراجات سے زیادہ 778 ارب ڈالر کے عسکری اخراجات کر رہا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق چین 252 ارب ڈالر، انڈیا 72.9 ارب ڈالر، روس 61.7 ارب ڈالر، برطانیہ 59.2 ارب ڈالر، سعودی عرب 57.5 ارب ڈالر، جرمنی 52.8 ارب ڈالر اور فرانس 52.7 ارب ڈالر کے لگ بھگ عسکری اخراجات کر رہے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین اس وقت عسکری اخراجات میں پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس کا خرچہ فہرست میں موجود روس سمیت اگلے چار ممالک کے مشترکہ اخراجات سے زیادہ ہے۔ اگرچہ ابھی بھی اس کا عسکری خرچہ جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کچھ کم ہے (امریکہ 3.7 فیصد) لیکن اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سال 2000ء میں یہ اخراجات 20 ارب ڈالر تھے اور اب ان کا حجم دس گنا بڑھ چکا ہے۔

چینی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق اب وہ دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت بن چکے ہیں اور ان کے پاس جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں بھی ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل نے خبردار کیا ہے کہ ”پہلے چوری چھپے، پھر مرحلہ وار اور اب بڑی چھلانگوں کے ساتھ چین گہرے پانی کی ایک بحری قوت تیار کر رہا ہے جس میں عسکری اور سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے اڈوں کا ایک نیٹ ورک بھی شامل ہے۔ کمبوڈیا میں ایک نئے چینی اڈے کی خبر سے امریکی سیاسی حلقے اور امریکی بحریہ کی اعلیٰ قیادت کو جاگ جانا چاہیے کیونکہ اب چین تیزی سے ایک عالمی چیلنج بن رہا ہے“۔

اسی مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ”چین عالمی اڈوں کے ایک نیٹ ورک کا خواہش مند ہے تاکہ طاقت کے پھیلاؤ میں آسانی ہو“ اس میں مزید لکھا ہے کہ ”پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کے اڈوں کے پھیلاؤ کے متوازی چینی بحریہ کے اڈے بھی بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ اس کے مخالف سمت میں بڑھ رہا ہے جس میں موجودہ 297 بحری جہازوں کو سال 2027ء تک 280 تک محدود کر دیا جائے گا۔ چین کے پاس 355 بحری جہاز موجود ہیں اور سال 2030ء ان کی تعداد 460 ہو جائے گی۔ بیجنگ چھوٹے جہازوں پر انحصار کرتا ہے لیکن جلد ہی وہ ایک جدید ایئرکرافٹ کیریئر لانچ کریں گے جس کے بعد وہ بیرون ملک فضائی قوت کو بھی پھیلائیں گے“۔

الجزیرہ نیوز چینل کی ایک رپورٹ نے نشاندہی کی کہ:

”اس میں چین کے 9 لاکھ 15 ہزار سے زیادہ فعال فوجی ڈیوٹی دے رہے ہیں جبکہ نئی پینٹاگون چینی ملٹری پاور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں یہ تعداد 4 لاکھ 86 ہزار ہے“

”فوج اپنے اسلحے میں جدید ٹیکنالوجی والے ہتھیار اکٹھے کر رہی ہے۔ سال 2019ء میں DF-14 انٹر کانٹی نینٹل بالسٹک میزائل قومی دن کی عسکری پریڈ میں متعارف کرایا گیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ میزائل پوری دنیا میں کسی بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ لیکن یہ D-17 ہائپر سانک میزائل تھا جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔“

”اس سال رپورٹ آئی کہ درحقیقت چین نے جولائی اور اگست میں ہائپر سانک میزائل کے دو تجربات کئے تھے۔ ایک اہم امریکی جرنیل نے کہا کہ یہ تقریباً ’سپٹنک لمحہ‘ تھا۔ یعنی سال 1957ء میں سوویت یونین کا خلاء میں لانچ کردہ سیٹلائٹ جس نے سوویت یونین کی خلائی دوڑ میں سبقت پر مہر ثبت کر دی تھی“۔

چین کی فضائی قوت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اب یہ ایشیا-الکاہل میں سب سے بڑی اور دنیا میں تیسری بڑی طاقت بن چکی ہے۔ اس کے پاس 2 ہزار 500 ہوائی جہاز اور تقریباً 2 ہزار جنگی ہوائی جہاز ہیں۔ یہ اعدادوشمار سال 2020ء میں امریکی وزیر دفاع کے دفتر کی ایک سالانہ رپورٹ میں شائع ہوئے تھے۔

طاقتوں کا نیا توازن

ان تمام وجوہات کی بنیاد پر امریکی حکمران طبقہ بہت پریشان ہے اور اب اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس سامراج ہے لیکن کم از کم انڈو-الکاہل خطے کی حد تک چین اس کے مفادات کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

اس ہفتے (10-12 جون) ایشیاء کی اہم سیکورٹی میٹنگ شنگریلا ڈائیلاگ سنگاپور میں منعقد ہو رہی ہے۔ امریکہ اور چین دونوں کے وفد اس میٹنگ میں شامل ہوں گے۔ تائیوان سے متعلق جارحانہ چینی رویہ، جنوبی چینی سمندر میں عسکری سرگرمیوں اور الکاہل خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے اقدامات اور بائیڈن کی چینی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اتحاد بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں اس میٹنگ میں پہلی مرتبہ پہلی اور دوسری عالمی طاقتوں کے اختلافات پھٹ کر سامنے آ سکتے ہیں۔

یقینا تائیوان کا معاملہ چپقلش کا ایک بنیادی عنصر ہو گا جس کے ساتھ یوکرین جنگ پر چینی موقف بھی شامل ہو گا۔ دہائیوں تک امریکہ نے نام نہاد ”تزویراتی ابہام“ قائم رکھا جس کے تحت اس نے کبھی کھل کر اعلان نہیں کیا کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ عسکری مداخلت کرے گا۔ لیکن بائیڈن کے حالیہ اعلانات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی براہ راست عسکری مداخلت میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اگرچہ امریکی نمائندگان نے اس حوالے سے ابہام قائم رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ دھمکی بدستور موجود ہے اور چینی حکام اس حوالے سے شدید نالاں ہیں۔

21 مئی کو APEC کی میٹنگ سال 1989ء میں اپنے تاسیسی اجلاس سے یکسر مختلف حالات میں ہوئی۔ اس وقت عالمی معیشت ہولناک بحران کا شکار ہے جس میں تمام بڑی عالمی قوتیں اپنے زیر اثر علاقوں، خطوں اور منڈیوں کا دفاع کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں۔ کرونا وباء نے سپلائی چینز اُکھاڑ کر رکھ دی ہیں۔ یوکرین میں جنگ سے یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہو چکی ہے۔ عالمگیریت کا پہاڑ زمین بوس ہو رہا ہے اور علاقائی طاقت کے مراکز اُبھر رہے ہیں۔

اس میٹنگ میں جب روسی معاشی وزیر میکسم ریشیتنیکوف بول رہا تھا تو کینیڈا، نیوزی لینڈ، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ کے نمائندگان احتجاج میں اٹھ کر باہر چلے گئے۔ وہ ”روسی جنگ پر سخت الفاظ“ کے خواہش مند تھے۔ اس ہفتے کے اختتام پر یہ تماشا دوبارہ دہرایا جا سکتا ہے۔

یہ تمام صورتحال ایک نئے عہد کی عکاسی کر رہی ہے۔ جس عرصے میں دو عالمی قوتیں امریکہ اور سوویت یونین پوری دنیا پر تسلط قائم کئے بیٹھی تھیں، اس وقت ایک مخصوص قسم کا توازن موجود تھا۔ اس زمانے میں عمومی استحکام کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک طاقتور معاشی خوشحالی تھی جس نے دہائیوں بے مثال معاشی نمو کو قائم رکھا۔ یہ زمانہ سوویت یونین کے انہدام اور امریکہ کی اکلوتی عالمی سامراجی قوت کی حیثیت میں اختتام پذیر ہو گیا۔

امریکی حکمران طبقہ اعتماد کے نشے میں چور تھا اور اس کا اظہار سال 1991ء میں امریکی صدر جارج بش سینئر نے ان الفاظ میں کیا کہ ”ایک سو نسلوں نے امن کے انتہائی مشکل رستے تلاش کیے، جبکہ انسانی تاریخ میں ایک ہزار جنگیں ہوئیں۔ آج اُس نئی دنیا کا جنم انتہائی مشکلات کے ساتھ ہو رہا ہے، ایک ایسی دنیا جو اُس دنیا سے بالکل مختلف ہے جسے ہم جانتے ہیں“۔

جس نئی دنیا کی پیدائش ہوئی یہ وہ نہیں تھی جس کا اظہار اس وقت جارج بش کر رہا تھا۔ ان کے تخیل میں امریکہ جتنا طاقتور تھا، وہ اب نہیں رہا اور امن کا خواب چکنا چور ہو چکا ہے۔ دنیا جنگوں سے حاملہ ہے، یوکرین کی موجودہ جنگ واضح طور پر روس اور امریکی سربراہی میں NATO کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے جبکہ ایک زیادہ بڑا اور خطرناک ٹکراو انڈو-الکاہل خطے میں پنپ رہا ہے۔

یوکرین جنگ کے آغاز پر ایک تیسری عالمی جنگ کے خطرات پر بات ہوئی اور اب آج کچھ افراد تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ جنگ پر ایک مرتبہ پھر تیسری عالمی جنگ کے امکانات گنوا رہے ہیں۔ کیا امریکہ اپنی افواج کے ساتھ براہ راست مداخلت کرے گا، یہ ایک الگ بحث ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یوکرین کے معاملے پر NATO نے واضح طور پر یوکرینی فضاؤں میں ”نو فلائی زون“ لاگو کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے کیونکہ اس کا مطلب روسی افواج سے براہ راست تصادم ہے۔

تائیوان سے متعلق امریکی پالیسی پر بائیڈن کی بیوقوفی کے بعد موجودہ امریکی سیکرٹری دفاع جنرل لائیڈ آسٹن نے اصرار کیا کہ بائیڈن کا تبصرہ ”تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت تائیوان کو اپنے دفاع کے لئے امداد فراہم کرنے سے متعلق ہے“۔ تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت امریکہ ”تائیوان کو اس مقدار میں دفاعی امداد اور سروسز دے گا جو ایک فعال دفاعی صلاحیت کے لئے لازم ہوں“۔

دو بڑی جوہری قوتوں کے باہمی تصادم سے دونوں کی مشترکہ تباہی کا خطرہ ہے اور کوئی ایک بھی فاتح ثابت نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے اس سے حکمران طبقے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لئے مستقبل میں تائیوان پر ممکنہ تصادم کے نتیجے میں امریکہ چین کو دیو ہیکل پابندیوں کے ذریعے سر نگوں کرنے کی کوششیں کرے گا لیکن براہ راست عسکری مداخلت ممکن نہیں۔ یہی پالیسی یوکرین میں روس کے حوالے سے اپنائی گئی ہے۔

لیکن ایسی صورتحال میں بے مثال تجارتی جنگ چھڑ جائے گی اور پوری دنیا کی ہر معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔ پوری دنیا کے کروڑوں اربوں افراد پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ٹوٹیں گے جن کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ روس کے خلاف پابندیوں کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں یعنی کہ ترقی یافتہ ممالک میں بے پناہ بڑھتی غربت کی صورت میں، جبکہ غریب ممالک کو دیو ہیکل بھوک کا سامنا ہے۔

یہ آج کی ”نئی دنیا“ ہے۔ یہ پوری دنیا کے حکمرانوں کے منہ پر لعنت ہے جس میں امریکی، افریقی، یورپی، ایشیائی، چینی اور روسی حکمران سب شامل ہیں۔ انہیں صرف اپنے تنگ نظر طبقاتی اور قومی مفادات سے غرض ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ عرصہ دراز پہلے سرمایہ داری سماج کو مزید ترقی دینے میں اپنا ترقی پسند کردار کھو چکی ہے۔ اب یہ ہمیں بربریت کی عمیق دلدل میں گھسیٹ رہی ہے۔

محنت کش طبقے کی قوت

لیکن اس دنیا میں ایک ایسی قوت بھی موجود ہے جو اس ہولناک صورتحال کو ختم کر سکتی ہے؛ وہ ہے محنت کش طبقہ۔ پوری دنیا میں اس وقت 3 ارب مزدور ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں، پوری دنیا کے غرباء اور کچلے ہوئے انسانوں کے ساتھ مل کر تاریخ کا دھارا بدل سکتے ہیں۔ تمام ممالک کے محنت کشوں کو ایک دیو ہیکل قوت کے طور پر متحد ہو کر اپنے ممالک کے حکمران طبقات کو ختم کرنا ہو گا۔ امریکی، یورپی، چینی اور تمام براعظموں کے محنت کشوں کو دیو ہیکل تباہی اور موت کی نسل کش جنگیں لڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

جنگوں اور قومی شاونزم کے ادوار میں مارکس وادیوں کو عالمگیریت کے اصول پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہوتا ہے تاکہ تمام ممالک کے محنت کشوں کے مشترکہ مفادات کو ان کے ملکی حکمرانوں کی مخالفت میں پیش کر سکیں۔ ہمیں چینی اور امریکی محنت کشوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں کسی جنگ یا جھڑپ سے کسی کو کوئی فائد نہیں ہے۔ اس سارے عمل میں تائیوان بھی تباہ و برباد ہو گا جیسے آج ہم یوکرین کو تباہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ تمام ممالک پر اثرانداز ہوتا گہرا معاشی بحران ان ممالک میں موجود حکمران طبقات کے وجود پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ محنت کش اور نوجوان مسلسل بڑھتے افراطِ زر میں پس رہے ہیں۔ ہر ملک میں طبقاتی جدوجہد مسلسل شدت اختیار کر رہی ہے جس کا اظہار بڑھتے ہوئے احتجاجوں اور ہڑتالوں میں ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ غیر منظم محنت کشوں میں یونینوں میں منظم ہونے کا رجحان بھی مسلسل بڑھ رہا ہے جبکہ یونینیں جارحانہ اقدامات کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

ہم نے قزاقستان سے سری لنکا، ترکی سے ایران، لبنان سے سوڈان اور سامراج کے دل امریکہ میں دیوہیکل احتجاج دیکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ ممالک میں احتجاج نیم بغاوتوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ یہ تحریکیں آج چیخ چیخ کر اس حقیقت کا اعلان کر رہی ہیں کہ سرمایہ داروں کے مفادات کیلئے مختلف ممالک کی جنگوں کی جگہ اب طبقاتی جنگوں نے لینا شروع کر دی ہے۔

پوری دنیا میں صدیوں اور دہائیوں کے عرصے میں پنپ کر آج دیو ہیکل پیداواری قوتیں موجود ہیں۔ اگر ان قوتوں کو تمام افراد کے درمیان ایک بھائی چارے کی لڑی میں پرو دیا جائے تو ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کر جنگ اور افراطِ زر سے لے کر اشیاء خوردونوش کی قلت تک ہر مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

یہ ہے وہ پیغام جو آج ہم نے دنیا کے ہر محنت کش تک پہنچانا ہے۔ ہم مضمون کا اختتام کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی شہرہ آفاق کمیونسٹ مینی فیسٹو کے ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ”محنت کشوں کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں، اور پانے کو سارا جہان ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاو!“