جاپان: شِنزو آبے کا قتل اور رجعتی حکمران طبقے کے باہمی تضاد

8 جولائی کے دن مقامی وقت شام پانچ بجے کے کچھ منٹ بعد شِنزو آبے کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔ جاپان کے سابق وزیر اعظم اور پچھلی ایک دہائی میں جاپان سمیت مشرقی ایشیاء کے اہم ترین بورژوا سیاست دان کو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (LDP) کے ایک ممبر کی حمایت میں انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

عالمی حکمران طبقات کے نمائندوں نے آنسوؤں اور قصیدوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جو بائیڈن، ہلری کلنٹن، بورس جانسن، کیئر سٹارمر، ولادیمیر پیوٹن، ولادیمیر زیلنسکی اور دیگر نے اپنے تمام ”اختلافات“ کو پس پشت ڈال کر یک زبان اپنے صدمے کا صدق دل سے اظہار کیا، قتل کی شدید مذمت کی اور آبے کی میراث کی مدح سرائی کی۔

لیکن مسٹر آبے کی حقیقی میراث جاپانی محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی میں دیو ہیکل گراوٹ ہے جس کے نتیجے میں حکمران طبقے کی بے پناہ لوٹ مار ممکن ہو پائی۔ اس نے انتہائی محنت سے وراثت میں ملی LDP کی حکمرانی کو مزید پروان چڑھایا اور کامیابی سے تاثر دیا کہ یہ دنیا کی مستحکم ترین بورژوا حکومتوں میں سے ایک ہے۔ اس سارے کھلواڑ کے دوران اس نے انتہاء پسند قوم پرستوں اور رجعتیوں، انتہائی دائیں بازو یہاں تک کہ اعتراف شدہ فسطائیوں سے بھی قریبی تعلقات برقرار رکھے۔

اس بورژوا بدمعاش کے لئے ہمارے پاس آنسو کا ایک قطرہ نہیں ہے۔ لیکن اسے قتل کیوں کیا گیا اور اس ڈرامائی واقعے کے جاپانی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

”ایک مخصوص مذہبی گروہ“

41 سالہ قاتل تیتسویا یاماگامی جاپانی میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس (JMSDF، بحری فوج کے مساوی) کا سابق ممبر ہے۔ اگرچہ تفصیلات مبہم تھیں اور ہیں لیکن میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ قاتل نے اعتراف کیا ہے کہ اسے ”مسٹر آبے کی سیاست سے کوئی مسئلہ نہیں تھا“ بلکہ ”ایک مخصوص مذہبی گروہ سے تعلقات“ قتل کی وجہ ہے۔

اس دن انتشار کے دوران میڈیا پر معاملات کنٹرول کرنا خاص طور پر بہت مشکل ہو رہا تھا۔ شام تک ملک میں زیادہ تر میڈیا قاتل کی JMSDF میں سابق ممبر شپ پر بہت زیادہ زور دے رہا تھا جبکہ اس کے محرکات پر مبہم بات کی جا رہی تھی۔ بروز ہفتہ صبح کے وقت کچھ رپورٹوں سے تو ایک ”مذہبی“ گروہ کا اشارہ ہی ہذف کر دیا گیا۔ جاپانی پریس کی نام نہاد آزادی صحافت کے حوالے سے ایک متجسس حقیقت یہ ہے کہ جمعے کے دن ملک کے پانچ سب سے بڑے اخباروں آساہی شن بن، مائناچی شن بن، یومی یوری شن بن، سانکے شن بن اور نکے شن بن کی ایک ہی سرخی تھی!

ان انکشافات کے ساتھ سوشل میڈیا پر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک قابل ذکر تعداد نے قاتل کی شناخت کے حوالے سے دیگر سوالات اٹھانا شروع کر دیئے۔ ایک تجویز آئی کہ قاتل ”حقیقی جاپانی ہو ہی نہیں سکتا“ اور اس کے بعد بے بنیاد دعوے شروع ہو گئے کہ وہ ضرور ایک زینی چی (جاپانی لفظ جس کا مطلب غیر ملکی ہے) کورین ہو گا۔ اس ننگی قوم پرستانہ اشتعال انگیزی کے جواب میں فوکووکا میں موجود جنوبی کوریا کے قونصل خانے کو خبردار کرنا پڑا کہ ان دعووں کے نتیجے میں نفرت آمیز قوم پرست جرائم واقع ہو سکتے ہیں۔

لیکن خبر نکل چکی تھی۔ جاپانی ٹویٹر پر سب سے زیادہ ٹرینڈ کرنے والی سرچ ”ایک مخصوص مذہبی گروہ“ تھی۔ جمعے کے دن کئی افراد کو امید تھی کہ اس سے مراد یونی فکیشن چرچ ہے جسے عرف عام میں ”مونیز“ (بانی سن میونگ مون کے نام پر) یا موجودہ نام ”دی فیملی فیڈریشن فار ورلڈ پیس اینڈ یونی فکیشن“ سے جانا جاتا ہے۔ ہفتے کی شام کو گیندائی بزنس نے اس شک کی تصدیق کر دی۔

سب کچھ خاندان میں رہے گا

یونی فکیشن چرچ اور LDP کے درمیان تعلقات کا آغاز 1960ء کی دہائی میں ہوا۔ چرچ کی بنیاد پہلے دن سے خوفناک کمیونسٹ مخالف پاگل پن تھی اور LDP کا وجود ہی لیفٹ کی بربادی اور جاپان میں امریکی سامراج کے مفادات کا تحفظ تھا۔ اس بنیاد پر دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہونا فطری تھا۔

ایک طرف سن میونگ مون 1950ء کی دہائی میں جنوبی کوریا میں اپنا چرچ مضبوط کر رہا تھا اور دوسری طرف جاپان میں CIA نام نہاد ”1955ء کا نظام“ نافذ کر رہی تھی جس میں LDP واحد حکمران پارٹی تھی۔ اس آپریشن کی کامیابی کی کلیدی وجہ سابق جنگی مجرموں اور یاکوزا گینگ کی شمولیت تھی جنہیں 1948ء میں امریکی غاصب فوج نے سوگامو جیل سے رہا کیا تھا۔

ان میں سے ایک بڑا جنگی مجرم، منچوریا کے ہولناک استحصال کا بانی اور امریکی اور برطانوی سامراج پر جنگ کے اعلان پر دستخط کرنے والا نوبوسوکے کیشی تھا۔ کیشی اپنے ساتھیوں یوشی کوداما اور ریوچی ساساکاوا کے ساتھ امریکی سامراج کا سب سے اہم مہرہ ثابت ہوا۔ LDP کے قیام کے بعد اس نے بطور پارٹی سیکرٹری تمام امور پر 1957ء میں وزیر اعظم بننے تک گرفت مضبوط رکھی۔ 1960ء میں آنپو احتجاجوں کے نتیجے میں مجبوراً دست بردار ہونے کے بعد وہ بطور بااثر LDP قائد اہم سیاسی فیصلوں پر حاوی رہا۔

اس نے پارٹی کے سب سے بڑے دھڑے سیوا سیساکو کین کیو کائے کی بنیا درکھی۔ یہ دھڑا اپنے بانی کے انتہائی قوم پرست اور رجعتی افکار کا آج بھی ترجمان ہے۔ 1960ء کی دہائی میں کیشی نے پارٹی کے یونی فکیشن چرچ کے ساتھ ابتدائی تعلقات استوار کئے جس میں ٹوکیو میں ایک پلاٹ دینا بھی شامل تھا تاکہ وہاں ہیڈکوارٹر بنایا جائے۔ اس وقت سے پارٹی اور چرچ یک جان دو قالب ہیں۔ چرچ LDP کو حفاظت اور حمایت کے بدلے میں انتخابی حمایت فراہم کرتا ہے۔

نوبوساکے کیشی، شنزو آبے کا دادا ہے۔ جب پارٹی قائد اور وزیر اعظم کے منصب اسے منتقل ہوئے تو اس نے سیوا سیساکو کین کیو کائے کی رجعتی پالیسیوں کو جاری رکھا جس میں خاص طور پر 1947ء کے آئین کی شق نمبر 9 میں ترمیم شامل ہے جس کے مطابق جاپان ایک چاق و چوبند فوج نہیں رکھ سکتا۔ اس نے جنگی مجرموں کی یادگار یاسوکونی کے کئی دورے کئے۔ وہ ایک اور انتہائی رجعتی گروہ نِپون کائگی کا بھی ممبر ہے اور اس کی تاریخی ترمیمی پالیسی کے تحت مسلسل چین اور کوریا میں جاپانی جنگی جرائم کا انکار کرتا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس کے دورِ حکومت میں بھی یونی فکیشن چرچ کے ساتھ تعلقات برقرار رہے۔ پتہ چلا ہے کہ یاماگامی کی ماں اس چرچ کی ممبر تھی اور وہ چرچ کو عطیات دے کر دیوالیہ ہو چکی تھی جس کے بعد اس کے بیٹے میں قاتلانہ غصہ بھڑک اُٹھا۔ پہلے اس نے چرچ کے کسی اعلیٰ سطح کے ممبر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن جب اسے آبے کو قتل کرنے کا موقع ملا تو اس نے لمحہ ضائع نہیں کیا۔

شِزو آبے کی حقیقی میراث

اس کی موت کے بعد بدمعاشوں اور ٹھگوں کے اس خاندان کو جمہوریت کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ قتل کو ”جمہوریت کے خلاف دہشت“ بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مسٹر آبے کی مداح سرائی کرنے والوں میں ساتھی ”جمہوریت پسند“ جیر بولسونارو، ولادیمیر پیوٹن، ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرا مودی ہیں۔ آخری دو تو خاص طور پر مسٹر آبے کے بہت قریب تھے۔

اپنے پیش رو کی تقلید میں آبے کی حکومت میں مالکان آزاد تھے اور محنت کش طبقہ محکوم۔ اسے پوری دنیا میں ”آبے نومکس“ کی وجہ سے شہرت ملی۔ اس پروگرام کے مطابق زائے باتسو (بڑی کاروباری اجارہ داریاں) کو پیسوں میں نہال کیا گیا اور بورڈ ڈائریکٹرز اور شراکت داروں کی تجوریاں بھری گئیں۔ تھیوری یہ تھی کہ جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تو پھر کچھ قطرے امراء کے جاموں سے چھلک کر عوام کے حلق تک پہنچ جائیں گے۔

رونلڈ ریگن کے زیرِ صدارت امریکی حالات کی طرح یہاں بھی صورتحال تھیوری کے برعکس رہی۔ پورا سماج امیر ہونے کے بجائے جاپان کا عام محنت کش خوفناک حالات سے دوچار اور بدنامِ زمانہ حالاتِ کام کا شکار ہوگیا۔ آبے حکومت کے 2012-2020ء کے دورانیے میں 2 لاکھ 9 ہزار 901 افراد نے خودکشیاں کیں جن میں سے 19 ہزار 35 کام کے حالات سے منسلک تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ محض سرکاری اعدادوشمار ہیں۔

حکومت سالانہ 200 کاروشی (کام کی زیادتی کی وجہ سے موت) کیس نمٹاتی ہے جن کی وجوہات ہارٹ فیل یا دماغی شریان کا پھٹنا ہے۔ لیکن جاپانی حکومت کے جھوٹے اعدادوشمار کی طرح یہ بھی جھوٹ ہے۔ اس میں جاپان کے سب سے زیادہ استحصال کا شکار ”غیر جریدہ محنت کش“ شامل نہیں ہیں یعنی عارضی، ایجنسی ورکرز، خودکار کنٹریکٹر وغیرہ۔ اندازاً 6 کروڑ 86 لاکھ کی کل محنت کش فورس میں ان کی تعداد 2 کروڑ 77 لاکھ بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری اعدادوشمار میں حقیقی ورک فورس کا 30 فیصد سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ کام کی زیادتی کے خلاف مہم چلانے والوں کا اندازہ ہے کہ ہر سال کام سے منسلک 10 ہزار اموات ہو رہی ہیں۔

اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کی ایک اور مثال جاپان میں بے گھروں کی تعداد ہے۔ سرکاری طور پر حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد 4 ہزار سے کم ہے۔ لیکن یہ اعدادوشمار حاصل کرنے کا طریقہ کار حیران کن ہے۔ یہ اعدادوشمار ایک رائے شماری کے ذریعے اکٹھے کئے جاتے ہیں جن میں کلرکوں کو ایک کلپ بورڈ اور پینسل پکڑا کر انہیں پارکوں اور گلیوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں بے گھر افراد اکٹھے ہوتے ہیں اور نظر آنے والوں کی گنتی کر دی جاتی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں گداگری جرم ہے اور سماجی لعنت ملامت کا خطرہ ہر وقت موجود ہوتا ہے وہاں بے گھروں کی ایک خاطر خواہ تعداد ”روپوش“ ہے۔ جاپان میں ہزاروں افراد کا کوئی مستقل پتہ نہیں ہے جن میں سے بہت سارے نام نہاد ”سائبر بے گھر“ ہیں یعنی وہ وہ جو ایک مستقل فلیٹ کا کرایہ نہیں دے سکتے اور سائبر کیفیز میں کیوبکل کا کرایہ دیتے ہیں۔ اس مظہر کی حقیقی تعداد بے گھروں کے سرکاری اعدادوشمار سے بہت زیادہ ہے۔ صرف ٹوکیو میں اندازاً 4 ہزار سے زائد سائبر بے گھر ہیں۔

یہ شنزو آبے کی حقیقی میراث ہے۔ لاکھوں غیر یقینی کا شکار محنت کش جنہیں یہی معلوم نہیں کہ کل نوکری ہو گی یا نہیں، سماج کی نظروں سے دور دومربع میٹر کیوبکل میں دبکے ہوئے ہیں۔ ہر رات کمپیوٹر سکرین کے سامنے وہ شراب سے مدہوش ہوتے ہیں تاکہ انہیں نیند آ جائے اور پھر ایک دن آتا ہے جب ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ یہ ہولناک صورتحال زیادہ خوشحال پرتوں تک پھیلی ہوئی ہے جو کام کی زیادتی سے آزاد نہیں ہیں کیونکہ گھر اور مستقل نوکری قائم رکھنے کا واحد طریقہ کار اس طرزِ زندگی میں قید ہونا ہے۔

اس ساری صورتحال کے دوران امیر ساچو (کمپنی مالکان) ٹھنڈی شیمپین غٹاغٹ پیتے قہقہے لگاتے ہیں، دل لگی کے لئے کسی پاٹیک فلپ یا باکاراٹ گھڑی پر لاکھوں کروڑوں ین اڑاتے ہیں اور اپنی آلفا رومیو، فیراری، جیگوار اور ماسیراٹی میں دھوئیں اڑاتے خرمستیاں کرتے ہیں۔

2014-2019ء کے دوران تمام گھروں کی آمدن میں 3.5 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ 12 لاکھ 67 ہزار گھروں کی کل دولت 299 ٹریلین ین ہے۔ یعنی کل جاپانی گھروں میں سے 2.36 فیصد کل گھریلو دولت کے 19.42 فیصد پر قابض ہیں۔ ان میں سے 84 ہزار گھرانوں کی کل دولت 84 ٹریلین ین ہے جس کا مطلب ہے کہ مٹھی بھر 0.15 فیصد گھرانے کل میں سے 5.45 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ یہ ایسے حالات میں صورتحال ہے جب اوسط گھریلو کل دولت اور قابل خرچ کل آمدن OECD ممالک (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ، 37 امیر ترین ممالک) سے کم ہے۔ ایک انتہائی ترقی یافتہ اور امیر سماج میں یہ مظہر خاص طور پر مجرمانہ ہے۔

غیر ہمدردانہ ووٹ

اگرچہ قاتل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے انفرادی محرکات سیاسی نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آبے کی سیاسی پالیسیوں کا نتیجہ ایسے افراد ہیں جوانتہائی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ تاریخی واقعہ ان دیو ہیکل تضادات کا اظہار ہے جن پر LDP، کیراتسو (سب سے بڑی جاپانی کمپنیوں کا نیٹ ورک) ور ریاستی افسر شاہی کی آہنی تثلیث قائم ہے۔

مغربی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ آبے کا قتل ایک غیر معمولی واقع ہے جبکہ درحقیقت ایسے کئی واقعات جاپان کی سیاسی تاریخ میں پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ناگاساکی کے میئر ایتو ایچو کو 2007ء میں گولی سے قتل کر دیا گیا اور وزیر خزانہ توشیو آکاگی نے آبے کے ایک کرپشن سکینڈل کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے ممتاز شخص کے قتل کا جاپانی سیاست پر دیو ہیکل اثرا ہو گا۔

ہر کسی کو امید تھی کہ پچھلے اتوار کو ہاؤس آف کونسلرز (جاپانی قومی اسمبلی کا بالائی ادارہ) کے منعقد ہونے والے انتخابات میں LDP کی حمایت میں اسی طرح اضافہ ہو گا جس طرح 1980ء میں انتخابی مہم کے دوران ماسایوشی اوہیرا کی ہارٹ اٹیک سے موت پر ہوا تھا۔ اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ایسا رجحان موجود تو ہے لیکن یہ اس طرح کا ”ہمدردی کا ووٹ“ نہیں ہو گا جیسا 1980ء میں LDP نے حاصل کیا تھا۔

انتخابات میں 52.05 فیصد ووٹروں نے حصہ لیا جو اگرچہ 2019ء میں 48.8 فیصد کے مقابلے میں بہتر تو ہے لیکن بورژوا سیاست اور عوام کے درمیان خلیج کا اظہار بھی ہے۔ کیودو کے ایگزٹ پولز کے مطابق 21.9 فیصد غیر وابستہ ووٹروں نے LDP کو ووٹ دیا جو ایک بڑا حصہ ہے لیکن محض دو دن پہلے LDP کی سب سے اہم شخصیت کی ڈرامائی موت کے بعد متوقع ووٹوں سے کم ہے۔

منگل کو کیودو کی جانب سے ایک اور رائے شماری کے مطابق 62.5 فیصد ووٹروں نے کہا کہ وہ آبے کی موت پر ٹس سے مس نہیں ہوئے جبکہ صرف 15.1 فیصد نے کہا کہ اس واقعے کا ان پر اثر پڑا ہے۔ اگرچہ 58.4 فیصد کا خیال ہے کہ آئین میں ترمیم ترجیح نہیں ہے لیکن 37.5 فیصد کا خیال ہے کہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں گروہوں کے درمیان مستقبل میں پولرائزیشن بڑھنے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں۔ 42.6 فیصد کے نزدیک ووٹروں کے لئے سب سے اہم مسائل معاشی صورتحال اور افراط زر ہیں۔

LDP کا مستقبل کیا ہے؟

بہرحال ہاؤس آف کونسلرز میں LDP کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوا ہے اور اپنے دیرینہ اتحادی کومیتو کے ساتھ مل کر ان کے پاس ایک اچھی سادہ اکثریت موجود ہے۔ پھر دیگر دو آئینی ترمیم کی حامی پارٹیوں (ڈیموکریٹک پارٹی فار پیپل اور نِپون اِشن نو کائی) کے ساتھ مل کر اب وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس پوزیشن میں ہیں کہ آرٹیکل 9 میں ترمیم کر سکیں۔ اس ترمیم کے بعد ملک کو دوبارہ ملٹرائز کرنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔

حزب اختلاف کا ذکر کرنا ہی بیکار ہے۔ مرکزی مخالف پارٹی کنسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان (CDJP) کی نشستیں ایک مرتبہ پھر کم ہوئی ہیں۔ CDJP کے پاس LDP کے متبادل کوئی پروگرام نہیں ہے اور اختلاف صرف آئینی ترمیم پر ہے۔ جاپانی کمیونسٹ پارٹی (JCP) کی نشستوں میں بھی کمی ہوئی ہے کیونکہ ان کا گلا سڑا افسر شاہانہ بینر ایک مرتبہ پھر عوام کو متوجہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اقتدار پر LDP کی مضبوط گرفت کے باوجود آنے والا دور امن اور استحکام سے عاری ہے۔ آبے کے قتل سے پہلے ہی موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا اور آبے کے درمیان اہم تضادات بڑھ رہے تھے۔ اگرچہ پارٹی میں آبے کا دیو ہیکل اثرورسوخ تھا لیکن کیشیدا کا تعلق مخالف کوچیاکی دھڑے سے تھا۔

کوچیاکی روایتی طور پر چھوٹی افسر شاہی اور پیٹی بورژوازی کا نمائندہ اور شائد LDP کا سب سے زیادہ معتدل دھڑا ہے۔ کیشیدا اور آبے کے درمیان ایک بہت بڑا مسئلہ آئینی ترمیم کا تھا۔ کوچیاکی روایتی طور پر آئین کی امن پسند شق کا حامی ہے اور امریکی سامراج پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس سال یوکرین جنگ کے آغاز پر آبے نے جاپان میں امریکی جوہری ہتھیار نصب کرنے کی تجویز پیش کی جو ملک کی سخت گیر جوہری ہتھیار مخالف پالیسی کے خلاف ہے اور اس کے نتیجے میں کیشیدا نے کھل کر پارلیمنٹ میں آبے کی مخالفت کی اور تجویز کو ناقابل قبول قرار دے دیا۔

آبے کی موت کیشیدا کے لئے انمول تحفہ ہے۔ سیوا سیساکو کین کیو کائے اس وقت شتر بے مہار ہے اور فی الحال کوئی مناسب قائد نظر نہیں آ رہا۔ کیشیدا کے پاس اس وقت وہ موقع موجود ہے جس کا وہ چند ہفتوں پہلے تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ آبے کا دھڑا آج بھی پارٹی کا سب سے بڑا اور طاقتور دھڑا ہے اور کیشیدا ابھی بھی انتہائی رجعتی نِپون کائگی کا ممبر ہے جو آبے حکومت میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتا رہا ہے۔ نوبوسوکے کیشی کا انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا خاندان آبے کی موت سے ختم نہیں ہوا ہے۔ آبے کا چھوٹا بھائی نوبو کیشی وزارت دفاع کا سربراہ ہے۔

کیشیدا کو اپنے پتے احتیاط سے کھیلنا ہوں گے اور ذاتی طور پر مخالفت کے باوجود عوام میں آئینی ترمیم اور انتہائی دائیں بازو کی کچھ پالیسیوں کی حمایت کرنی پڑے گی۔ وہ ان ترامیم کو روکنے یا سست کرنے کی کوششیں تو کر سکتا ہے لیکن اگر اس نے کوئی چال اچانک چلی تو اس کی سیاسی اور جسمانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ دایاں بازو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔

اس پر امریکی سامراج کا دباؤ بھی ہو گا۔ بظاہر کوچیاکی پالیسیاں واشنگٹن کے لئے انتہائی دلفریب ہیں کیونکہ امن پسند آئین کا مطلب امریکی سامراج پر دفاعی انحصار ہے۔ لیکن امریکی سامراج خود عمومی انحطاط کا شکار ہے اور ابھرتی قوتوں خاص طور پر چین کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور قوت ہونے کے باوجود عالمی اور مشرقی ایشیاء میں بڑھتے عدم استحکام کے پیش نظر واشنگٹن چاہتا ہے کہ امریکی فورسز کی آزادانہ نکل و حرکت کے لئے جاپان اب اپنی فوج پروان چڑھائے۔

”نئی“ اور ”پرانی“ سرمایہ داری مردہ باد! سوشلزم زندہ باد!

کیشیدا کی ایک کلیدی پالیسی ”نئی سرمایہ داری“ ہے۔ ’آبے نومکس‘ کو مکمل رد کرتے ہوئے اس کا نام نہاد مقصد سماج میں دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم ہے۔ کیشیدا یہ کام کیسے کرے گا ایک راز ہے، کیونکہ جب مئی میں اس کا منصوبہ پیش ہوا تو اس پر فنانس کیپیٹل نے شدید تنقید کی جو ٹیکسوں میں کسی قسم کے اضافے کا شدید مخالف ہے۔ اس منصوبے پر پارٹی کے دائیں بازو نے بھی تنقید کی جس کے بعد جب جون میں حتمی منصوبہ پیش ہوا تو اس میں ٹھوس تجاویز سے عاری کھوکھلی نعرے بازی تھی کہ ”بڑھوتری اور تقسیم کا ایک نیک نظام“ بنایا جائے گا۔

بہرحال کیشیدا اس نعرے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومت کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آغاز میں جاپانی محنت کش اس منصوبے کے لئے کچھ حمایت کر سکتے ہیں کیونکہ ”پرانی“ سرمایہ داری میں ان کے حالات بہت خراب ہیں۔ لیکن یہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے جس میں کوئی ایک کمزور ترین اصلاح بھی موجود نہیں ہے اور عالمی سرمایہ داری کے تاریخی بحران سے نمٹنے کے لئے یہ مکمل طور پر بانجھ ہے۔ کیشیدا کی حکومت میں بے چینی اور مایوسی مسلسل بڑھے گی۔

حتمی تجزیے میں جاپانی محنت کش طبقے کے پاس وہی راستہ موجود ہے جو پوری دنیا کے محنت کشوں کا راستہ ہے؛ یعنی سرمایہ داری سے قطع تعلقی، ریاست اور اس کے اداروں کو کچلنا اور محنت کش طبقے کے کنٹرول میں ایک حقیقی جمہوری سوشلسٹ سماج تعمیر کرنا۔ اس حل کو جاپان میں کوئی بھی پیش نہیں کر رہا۔

پچھلے ہفتے کے واقعات نے جاپان میں بڑھتے عدم استحکام کو واضح کر دیا ہے۔ سرمایہ دار مالکان کے میڈیا کا غلیظ کردار، نام نہاد خاندانی جمہوریت کے دھوکے اور اس ریاست کے فسطائیوں اور وحشی کمیونسٹ مخالفوں کے ساتھ تعلقات بے نقاب ہونے کے بعد کئی جاپانیوں میں شعوری تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

جاپانی محنت کش طبقے کو ایک ایسی تنظیم درکار ہے جو کمیونسٹ انقلاب کا بینر اٹھائے اور انقلاب کو کامیاب کرائے۔ کمیونسٹ پارٹی آف جاپان نے عرصہ دراز پہلے اصلاح پسندی اور افسر شاہی کی غلاظت میں ڈوب کر یہ کردار فراموش کر دیا ہے۔ ایک انقلابی صورتحال میں وہ تحریک کو مفلوج، تعفن زدہ اور ناکام کرنے کی بھرپور کوششیں کریں گے۔ اس لئے وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ محنت کشوں کی سب سے شعور یافتہ پرتیں ان پرانے کیریئراسٹ افسران کو گھسیٹ کر باہر نکالیں اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھائیں۔ اس کے لئے ایک تنظیم کی ضرورت ہے جسے راتوں رات تو تعمیر نہیں کیا جا سکتا لیکن آج سے آغاز لازم ہے۔

اگر آپ ہمارے نظریات، تجزیے اور پروگرام سے متفق ہیں تو ہم آپ کو عالمی مارکسی رجحان کی صفوں میں خوش آمدید کہتے ہیں۔