پینٹاگان کے خفیہ راز افشاں: امریکی سامراج کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب!

گمنام شخصیات (اب ایک 21 سالہ ائر نیشنل گارڈ جیک ٹیشیرا کو گرفتار کر لیا گیا ہے) کی جانب سے انتہائی خفیہ راز کے 100 صفحات انٹرنیٹ پر اپ لوڈ ہونے کے بعد امریکی ریاستی حکام شدید پریشان ہیں۔ انہیں پہلی مرتبہ کچھ گیمرز نے ڈسکارڈ ایپ پر شیئر کیا تھا۔ ان دستاویزات میں یوکرین میں امریکی مداخلت کی وسعت، یوکرین کو درپیش سنجیدہ مسائل، نیتن یاہو کے خلاف عوامی احتجاج ابھارنے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا کردار اور دیگر کئی معاملات کی تفصیل ہے۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اس واقعے نے امریکی ریاست کی ساکھ پر کاری زخم لگایا ہے اور اس کے کئی اتحادیوں کا اعتماد شدید مجروح ہوا ہے جن میں سے کئی کی (دستاویز کے مطابق) انکل سام جاسوسی کر رہا ہے۔ ان لیکس نے عالمی سیاست پر ہمارے تناظر کو بھی درست ثابت کیا ہے اور ایک مرتبہ پھر ثابت ہو گیا ہے کہ مارکسی تجزیہ ہمیں حیرانی پر دوراندیشی کی خصوصی فوقیت عطا کرتا ہے۔

ان دستاویزات کی تصاویر، جن کی پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ یہ درست ہیں (سوائے چند ایک جنہیں بعد میں تبدیل کر دیا گیا ہے)، ٹیلی گرام اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کر رہی ہیں۔ ان میں سے کئی صفحات پر واضح طور پر ”ٹاپ سیکرٹ“ اور NOFORM (غیر ملکیوں کو نہیں دیئے جا سکتے) لکھا ہوا ہے یعنی بشمول فائیو آئز (اتحادی خفیہ ایجنسیاں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ) انہیں کسی خفیہ ایجنسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا۔

یہ واضح طور پر کسی سائبر اٹیک کے برعکس اندرونی کاروائی ہے۔ ان انتہائی خفیہ معلومات تک رسائی صرف امریکی سیکورٹی سروس کے مخصوص حکام اور صدارتی دفتر کو تھی۔ انہیں پرنٹ کر کے تہہ کیا گیا (شائد کسی نے جیب میں ڈالا) اور پھر بعد میں تصاویر لی گئیں۔ کچھ تصاویر میں گوریلا گوند (گوند، ٹیپ اور دیگر چپکانے کی چیزیں بنانے والی امریکی کمپنی کی گوند: مترجم) اور ایک شکاری بندوق کی دوربین دیکھی جا سکتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک ہی مقام پر تمام تصاویر لی گئی ہیں۔

اس وقت بائیڈن انتظامیہ اس ساری صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے ایک تفتیش شروع کر دی ہے کہ یہ کام کیسے ہوا اور کس نے کیا جبکہ پینٹاگون کے حوالے سے خبریں ہیں کہ وہ ”دن رات ایک کر رہے ہیں“ اور سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن نے قسم دی ہے کہ وہ ”ہر ممکن کوشش کریں گے“ کہ یہ سب کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیکرٹری برائے ریاست (امریکی وزیر خارجہ: مترجم) اینتھونی بلنکن نے امریکی اتحادیوں سے بات کی ہے تاکہ ”انہیں خفیہ معلومات کی حفاظت کے حوالے سے ہماری سنجیدگی کا یقین دلایا جائے“۔

امریکہ کی ہر ممکنہ کوشش کہ ”سب کنٹرول میں ہے“ کے باوجود جن اقوام کی تفصیل افشاں ہوئی ہے ان کا رد عمل شدید غصہ، حیرانی اور انکار ہے۔ اس دوران پولیٹیکو اخبار (ایک جرمن پرنٹ کمپنی کی ملکیت میں امریکی اخبار: مترجم) نے پینٹاگون کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ایک گمنام اہلکار کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق ”میں بہت مایوس ہوں۔۔ یہ بہت بڑا دھوکہ ہے“۔

یوکرین پر مایوسی

امریکی سامراج کے نکتہ نظر سے سب سے زیاہ نقصان دہ راز یوکرین جنگ سے متعلق ہیں۔ مغرب میں مسلسل سینہ پیٹ کر یوکرینی افواج کی کامیابیوں اور اُفق پر جوابی جارحیت کی کہانیاں سنانے کے برعکس کچھ امریکی حکام کے بڑھتے محتاط تجزیوں کی ان لیکس نے تصدیق کی ہے۔

انتہائی تفصیل سے دستاویزات میں (ممکنہ طور پر آفس آف ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کا تجزیہ ہے) نقشوں پر باخموت جیسے شدید لڑائی والے محاذوں کا حوالہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرینی ائر ڈیفنس میں شدید خامیاں ہیں۔

درج ہے کہ (ممکنہ طور پر آفس آف ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کا تجزیہ ہے)، نقشوں پر باخموت جیسے شدید لڑائی والے محاذوں کا حوالہ ہے، یوکرینی ائر ڈیفنس میں شدید خامیاں ہیں۔ ان کو مسلسل روسی میزائل بمباری نے پاش پاش کر دیا ہے۔ روسی فضائی حملوں کو روکنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”تربیت اور اسلحہ سپلائی میں مسلسل جاری خامیاں (ممکنہ) جوابی جارحیت کی کامیابی پر اثر ڈالتے ہوئے اموات میں اضافہ کریں گی“۔

یہ ان خبروں کی تصدیق ہے کہ کچھ علاقوں میں یوکرینی فوجیوں کے پاس مغربی اسلحہ ختم ہو رہا ہے اور وہ سویت زمانے کے کم صلاحیت ہاویٹزر (مارٹر اور توپ کے درمیان ایک آرٹلری ہتھیار: مترجم) استعمال اور اسلحہ راشن کرنے پر مجبور ہیں۔ اموات کی بلند شرح نے کیف کو کمک فراہم کرنے کے لئے عوام سے مزید ریکروٹمنٹ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور مردوں کو سڑکوں پر زبردستی ڈرافٹ نوٹس (فوج میں جبری شامل ہونے کا نوٹس: مترجم) دیئے جا رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں کئی رپورٹس آئی ہیں کہ غیر معیاری تربیت کے ساتھ نئے فوجی سرحدوں پر لڑنے کے لئے بھیجے جا رہے ہیں اور ایک نئے یوکرینی ریکروٹ کی باخموت کے محاذ پر اوسطاً زندگی چار گھنٹے ہے۔

یہ ممکن ہے کہ یوکرین سرگرم علاقوں سے دور موسم بہار میں زمین دوبارہ سخت ہونے کے بعد جارحیت کے لئے نئی افواج تیار کر ہا ہے۔ ان لیکس کے مطابق روسی افواج میں سپلائی اور مورال کا سنجیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے جس سے روسی افواج میں امریکی خفیہ ایجنسیوں کی بلند سطح دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔

بہرحال فروری کے آغاز میں کیف کی مشرق اور جنوب میں جوابی جارحیت کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے کہ افواج، اسلحے اور دیگر سازوسامان کی قلت میں عسکری اہداف ”بہت حد تک“ پورے نہیں ہوں گے اور پچھلے سال خراسان اور خارکیف میں بڑی جارحیت کے نتائج کے برعکس بہت کم علاقے پر قبضہ ممکن ہو سکے گا۔ مجموعی طور پر نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ ڈونباس کی جنگ ”تعطل کا شکار ہونے کے امکانات ہیں“۔۔ یہ تجزیہ بھی شائد کچھ زیادہ رجائیت پسند ہے۔

پھر یوکرین ایک طویل عرصے سے اشارہ دے رہا ہے کہ کریمیا کو روس سے جوڑنے والا پل تباہ کر دیا جائے تاکہ اس اہم کمک سپلائی چین کو توڑ دیا جائے۔ ردعمل میں جزیرہ نما کے ارد گرد روسی افواج میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق کانگریس میں یوکرین کے اتحادی اس مہم جوئی سے زیادہ پرامید نہیں ہیں جو عوام میں واشنگٹن کے اس وعدے کے خلاف ہے کہ وہ یوکرین کے تمام جنگی اہداف کی آخری حد تک حمایت کریں گے۔

پراکسی جنگ

یوکرینی لیکس کے اثرات کو معمولی بنا کر پیش کر رہے ہیں اور ایک گمنام اعلیٰ سطح اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ اخبار سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر معلومات پہلے ہی عوام کو پتا ہیں۔ ”نومبر سے سب کو واضح ہے کہ اگلا جوابی حملہ شمال میں پہلے میلی توپول اور پھر بردیانسک پر مرکوز ہو گا۔ لیکن عین کونسی جگہ (پر حملے کا آغاز ہو گا۔ مترجم)۔۔ یہ ہم ایک ہفتہ پہلے تبدیل کر سکتے ہیں“۔ لیکن یوکرینی صدر ولودیمیر زلینسکی کے ایک مشیر نے پیر کے دن CNN کو بتایا کہ یوکرین بہرحال موسم بہار میں منصوبہ بند جارحیت کے کچھ حصے کسی حد تک تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

ان دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ تجزیوں کی بنیاد حساس انفرادی اور سگنل انٹیلی جنس ہے یعنی روسی افواج اور واگنر گروپ (روسی کرائے کے جنگجووں کا ایک پیشہ ورانہ گروپ جس کے مالک یفگینی پریگوزن کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے گہرے مراسم ہیں اور یہ گروپ کئی ممالک میں نجی طور پر خفیہ روسی آپریشن کرتا ہے۔ مترجم) میں موجود ایجنٹوں نے پیغامات اور معلومات فراہم کی ہیں جو اب ممکنہ طور پر خود خطرات کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن کیف کے نکتہ نظر سے اس سارے واقعے کا سب سے بڑا خطرہ مغربی اتحادیوں کے اندرونی اتحاد پر اثر ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے ایک مضمون ”یوکرین دستاویزات لیکس کا سب سے بڑا نقصان لیک خود ہے“ میں لکھا ہے کہ:

”پچھلے دو مہینوں سے کیف کی افواج مشرقی یوکرین میں روسی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہیں اور ایک ایسی جنگ جو ممکنہ طور پر کئی مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ جاری رہ سکتی ہے، مغرب کی یوکرینی افواج کو (سازوسامان کی۔ مترجم) سپلائی جاری رکھنے کے حوالے سے ا پنی اہلیت اور قوت ارادی کے حوالے سے پریشانیاں لاحق ہیں۔ یوکرین جنگ میں پیوٹن شائد اس جنگ کا یہ منکشف راز اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتا ہے کہ جنگ جتنی طویل ہو گی، یوکرین کے اتحادیوں پر اتنا ہی دباؤ بڑھے گا کہ کسی بھی شرائط پر امن قائم ہو۔ کسی قسم کی لیکس اس حقیقت کو تبدیل نہیں کریں گی“۔

پھر ان لیکس نے اس جنگ کے کردار کو ننگا کر دیا ہے کہ (اس حوالے سے ہمارا روز اول سے یہی موقف ہے) یہ یوکرینی زمین پر لڑی جانے والی نیٹو۔۔ جس کی سربراہی امریکہ کر رہا ہے۔۔ اور روس کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے۔ نیو یارک ٹائمز اخبار نے تبصرہ کیا ہے کہ:

”100 سے زیادہ سلائیڈز اور بریفنگ دستاویزات (پر مشتمل ان لیکس۔ مترجم) نے شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ امریکہ روزانہ کی بنیاد پر جنگ میں کس حد تک ملوث ہے جس میں ابھی تک یوکرینی کامیابیوں کی بنیاد درست انٹیلی جنس اور لاجسٹک سپورٹ ہے۔ اگرچہ صدر بائیڈن نے امریکی افواج کو براہ راست روسی اہداف پر حملہ آور ہونے سے روکا ہوا ہے اور ایسے ہتھیاروں کی فراہمی ممنوع ہے جو روسی علاقوں میں گہرائی تک پہنچ سکتے ہوں لیکن دستاویز میں واضح ہے کہ فوج کشی کے ایک سال بعد امریکہ باقی ہر معاملے میں شدت سے ملوث ہے۔

وہ (امریکہ۔ مترجم) اہداف سے متعلق مواد فراہم کر رہا ہے۔ وہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے والی طویل اور پیچیدہ لاجسٹک سپلائی چین پر معاونت کر رہا ہے۔۔ کئی صفحات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ جوائنٹ چیفز آف سٹاف کو بریف کرنے والی کتابوں سے اٹھائے گئے ہیں اور کچھ اثناء میں ان کا تعلق سی آئی اے آپریشن سنٹر سے ہے“۔

پوسٹ نے تفصیلی بیان کیا ہے کہ امریکی حکام یوکرینی عسکری قیادت کے ساتھ جنگ میں مختلف ممکنات اور تفصیلی احکامات صادر کرنے کے حوالے سے مسلسل مذاکرات کر رہے ہیں۔ دستاویزات میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ امریکی، دفاعی اور عسکری حکام کے ساتھ زلینکسی کی کالز پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یوکرینی ہاتھوں میں ہتھیاروں کا ہونا ایک ثانوی سوال ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس ایک نیٹو تربیت یافتہ اور مسلح فوج سے لڑ رہا ہے جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔ اس بنیاد اور صرف اس بنیاد پر ہی یوکرینی ابھی تک جنگ لڑ رہے ہیں۔

لیکس میں دیگر مغربی قوتوں کے براہ راست ملوث ہونے کے بھی اشارے ہیں۔ یکم مارچ 2023ء تاریخ والی ایک لیک دستاویز کے مطابق امریکہ، برطانیہ، فرانس، لاٹویا اور ہالینڈ سب کی اسپیشل فورسز یوکرین میں موجود ہیں۔ مبینہ طور پر برطانیہ کے سب سے زیادہ فوجی (50) اس وقت موجود ہیں جبکہ فرانس کے 15 اور امریکہ کے 14 موجود ہیں۔ اگرچہ ان دعووں کو برطانیہ اور فرانس کی وزارت دفاع نے مسترد کیا ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ مغربی فورسز یوکرین میں کم از کم غیر جنگی کردار میں ضرور موجود ہیں۔ یہ ایک اور ثبوت ہے کہ (اگر ضرورت پڑے) یہ جنگ روس اور مغرب کے درمیان ایک بلاواسطہ جنگ ہے جس میں ایک وسیع جنگ کے خطرات موجود ہیں۔

”ایک بھیانک خواب“

لیکس میں اور بھی کئی معاملات کا ذکر ہے جیسے اکتوبر 2022ء کا ایک واقعہ جس میں ایک برطانوی جاسوسی ہوائی جہاز کو ایک روسی جنگی ہوائی جہاز نے تقریباً مار گرایا تھا۔ ایک سی آئی اے دستاویز میں ایک روس نواز ہیکر گروپ کا تذکرہ ہے جس نے کینیڈا کے گیس ترسیلی نظام کو ہیک کر لیا تھا اور ”ممکنہ طور پر ایک فیڈرل سیکورٹی سروس (FSB۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد سویت KGB کو ختم کر کے جو خفیہ ایجنسیاں بنائی گئیں ان میں سب بڑی اور اہم خفیہ ایجنسی۔ مترجم) افسر انہیں احکامات دے رہا تھا“، یہ ایک تباہ کن حملہ ثابت ہو سکتا تھا۔ مجموعی طور پر ان تمام انکشافات کو ایک گمنام انٹیلی جنس افسر نے ”ایک بھیانک خواب“ قرار دیا ہے۔

یہ زبان زد عام حقیقت ہے کہ تمام سرمایہ دارانہ ریاستیں ایک دوسرے کی جاسوسی کرتی ہیں لیکن اس ساری کارستانی کا پوری دنیا کے سامنے انکشاف ہونے پر واشنگٹن کے اتحادیوں کو غصہ چڑھا ہوا ہے۔ خاص طور پر سیؤل کی حکومت کو شدید غصہ ہے کہ امریکہ جنوبی کوریا کی نیشنل سیکورٹی کونسل کی جاسوسی کر رہا تھا۔ منظر عام پر آنے والی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ جنوبی کوریا امریکہ کی جانب سے یوکرین کی موسم بہار جارحیت کے لئے 3 لاکھ 30 ہزار آرٹلری گولہ بارود فراہم کرنے کی درخواست پر تذبذب کا شکار ہے۔ اس درخواست کی کبھی عوامی سطح پر تائید نہیں کی گئی۔

یون سوک یول انتظامیہ امریکہ یا پولینڈ کو گولہ بارود فراہم کرنے میں اس لئے تذبذب کا شکار ہے کیونکہ یہ اسلحہ یوکرین کو فراہم کیا جا سکتا ہے جس سے ماسکو مشتعل ہو جائے گا جبکہ شمالی کوریا کی حد بندی کے لئے روس سے اہم تعاون کیا جا رہا ہے۔ سیؤل میں امریکہ کا خاموش وفادار کتا لیکس پر صرف ایک مرتبہ بھونکا جسے ”ایک وسیع سیکورٹی ناکامی“ قرار دیا گیا۔ اس نے امریکی جاسوسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک اہم اتحادی کے لئے ”قومی مفادات کے خلاف یہ ایک خودساختہ نقصان دہ عمل ہے جس سے جنوبی کوریا۔امریکی اتحاد متاثر ہوتا ہے۔۔ خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی ہے“۔

مارچ کی تاریخ والے ایک اور دستاویز کے مطابق موساد نے اسرائیل میں وسیع پیمانے پر عدالتی اصلاحات لاگو کرنے کی بنیامین نیتن یاہو کی کوشش کے خلاف اٹھنے والی حالیہ عوامی تحریک کو ابھارنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ ان الزامات کی اسرائیلی حکومت نے تردید کی ہے جسے ”امریکی پریس“ کا دعویٰ قرار دیا گیا، یہ ہمارے تجزیے کی تائید کرتا ہے کہ ان احتجاجوں کو بڑے اسرائیلی سرمایہ داروں کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی جو اس سر پھرے وزیراعظم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس عمل میں انہوں نے ریاست کو تقسیم کر دیا ہے۔

ان لیکس میں کچھ اتحادیوں پر امریکی سامراج کی گرفت کمزور ہونے کا اعتراف بھی ہے۔ ایک خفیہ دستاویز کے مطابق مصری صدر عبدل فتح السیسی کی حکومت (اسے قابل ذکر امریکی امداد فراہم کی جارہی ہے) منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ روس کے لئے بڑے پیمانے پر اسلحہ سازی کی جائے۔ ایک اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی انٹیلی جنس افسران نے متحدہ عرب امارات کو قائل کر لیا تھا کہ ”امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے خلاف مل کر کام کیا جائے“۔ قاہرہ اور ابو ذہبی دونوں نے فوراً ان الزامات کی تردید کی لیکن اگر یہ درست ہیں تو یہ ایک اور ثبوت ہے کہ عالمی سطح پر امریکی سامراج عمومی طور پر انحطاط پذیر ہے۔

”یہ کچھ لیک دستاویزات ہیں“

امریکی حکام خفیہ لیکس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کے کوآرڈینیٹر فار سٹریٹجک کمیونی کیشن جان کربی نے پریس میں ایک جارحانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”ان معلومات کا عوامی حلقے میں کوئی کام نہیں۔۔ کوئی کام نہیں۔۔ اخبارات کے پہلے صفحے یا ٹیلی ویژن پر“۔ اگرچہ چند میڈیا چینل، جن میں بائیڈن کو باقاعدگی سے تنقید کا نشانہ بنانے والا فاکس نیوز بھی شامل ہے، امریکی سامراجی مفادات کے تحفظ میں خاموش ہیں لیکن جن کو بوتل میں بند کرنے کی کربی کی کوشش کیلئے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ لیکس کی تفصیلات پوری دنیا کے دیگر نیوز چینلز کی زینت بن چکی ہیں جبکہ انٹرنیٹ پر پھیلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ان لیکس کی چند ایک خصوصیات خاص طور پر واشنگٹن کے لئے شدید دردِ سر ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ یہ اندرونی کاروائی ہے (اس سے اپنی سیکورٹی فورسز کی ایمانداری پر شک و شبہات بن گئے ہیں) لیکن ان لیکس کا وقت بہت تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ ان میں سے کئی دستاویز موجودہ سرگرمیوں سے متعلق ہیں اور دستاویز پر تاریخیں چند دن یا ہفتوں پرانی ہیں۔ پھر جس طرح سے یہ تصاویر انٹرنیٹ پر شائع ہوئی ہیں وہ بھی انتہائی ذلت کا سامان ہے۔

یہ راز افشاں کرنے والے اصل فرد کی تفصیلات مبہم ہیں اگرچہ واشنگٹن پوسٹ کے مضمون میں ڈسکارڈ ایپ پر 2020ء میں بننے والے ”ٹھگ شیکر سنٹرل“ ایک (اب ناکارہ) ”دعوت نامہ موصولی پر ممبرشپ کلب ہاوس“ کے ممبر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس گروپ کو تقریباً دو درجن افراد نے بنایا تھا جن میں ”بندوقوں، عسکری سامان اور خدا کی اجتماعی محبت مشترک“ تھی۔ مبینہ لیکر جس کو آن لائن دوست ”OG“ (مبینہ طور پر ٹیشیرا) کے نام سے جانتے ہیں، سرور پر موجود تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک عسکری بیس پر کام کرتا ہے۔

یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ تصاویر مارچ کے آغاز میں ایک ڈسکارڈ سرور پر اپ لوڈ ہوئی تھیں جسے ایک بیس سالہ برطانوی-فلپینو اور معمولی انٹرنیٹ سلیبرٹی ”wow_mao“ چلا رہا تھا۔ اس سرور پر زیادہ تر مواد گیمز اور میمز ہے۔

یہاں سے تصاویر ایک اور ڈسکارڈ سرور تک پہنچیں جو ویڈیوگیم ”مائن کرافٹ“ سے متعلق ہے جس میں ایک ممبر نے یوکرین جنگ پر بحث جیتنے کی کوشش میں ”ٹاپ سیکرٹ“ کی سٹامپ والی 10 دستاویز اپ لوڈ کرتے ہوئے میسج کیا کہ ”یہ لو، کچھ لیک دستاویزات“ جس پر ایک اور نے جواب دیا ”بہت اچھے“۔ اس کے بعد دستاویزات کی تصاویر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں جن میں خاص طور پر روسی نواز ٹیلی گرام اور ٹویٹر اکاؤنٹ شامل ہیں۔

اس لیک کی مضحکہ خیز رونمائی سے قطع نظر یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی حساس معلومات گمنام آن لائن کمیونٹیوں میں افشاں ہوئی ہیں۔ پچھلے سال ”maia arson crimew“ کے نام سے جانے ایک خود ساختہ ”ہیک ٹیوسٹ“ (مخصوص مقاصد کے لئے ہیک کرنے والا ہیکر۔ مترجم) نے امریکی حکومت کی 2019ء کی نوفلائی زون فہرست اپنے (گلابی رنگ اور بلی سے مزین) بلاگ پر اپ لوڈ کر دی تھی۔ پھر عسکری سواریوں کی ایک مشہور جنگی سیمولیشن گیم ”وار تھنڈر“ خفیہ عسکری دستاویزات کا اتنا عام ذریعہ بن چکی ہے کہ (عسکری گیک ”گیک۔ کسی مخصوص مضمون میں، جو خاص طور پر تکنیکی حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ ہو یا مقبول عام نہ ہو، شدید دلچسپی یا اس پر دسترس رکھنے والا شخص۔ مترجم“ حاضر سروس جنگی صلاحیتوں پر بحث مباحثہ جیتنے کے لئے انہیں اپ لوڈ کرتے ہیں) اس گیم کے خالقوں کو مخصوص پالیسیاں لاگو کر کے اس عمل کو روکنا پڑا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے ایک انٹرویو میں لیکس کو ”مزاحیہ“ گردانتے ہوئے wow_mao کا کہنا تھا کہ کس طرح اس طرح کی دستاویزات ”انٹرنیٹ کے سب سے زیادہ غیر مقبول، سب سے زیادہ گیک حلقوں میں پھیل جاتی ہیں۔ اس طرح کی دستاویزات ایسے ہی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔۔ فارغ لوگ۔ ان سے امریکی حکومت کو حقیقی طور پر ڈرنا چاہیے۔۔ نوجوان، ٹیکنالوجی سے بلد جو عام طور پر حکومت کی کوئی خاص عزت نہیں کرتے اور انہیں ہمیشہ اس کا مذاق اڑانے اور کسی طرح سے نقصان پہنچانے کا کوئی طریقہ کار ڈھونڈنے میں مزہ آتا ہے“۔

یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ ان کے حساس رازوں کی محافظ دیواریں اتنی آسانی سے ایسے غیر موزوں آن لائن افراد توڑ ڈالتے ہیں۔ جس تضحیک آمیز رویے کے ساتھ یہ معلومات حاصل اور پھیلائی جاتی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی ریاست کی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کی نظر میں کیا اوقات رہ گئی ہے۔

اس لیک کی دیدہ دلیری پر کچھ نے تبصرہ کیا ہے کہ شائد یہ خود امریکی حکام کا کام ہے۔ اس کا مقصد شائد یوکرین میں شکست سے پہلے ہی عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہے یا پھر کیف کے اتحادیوں پر حقیقت افشاں کر کے دباؤ ڈالنا ہے کہ اسلحے کی فراہمی کا عمل تیز تر کیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے اتحادی اس ساری صورتحال کو حقیقی طور پر پرانتشار دکھانے کا اچھا ناٹک کر رہے ہیں!

فی الحال ہم ان لیکس کو حقیقی سمجھنے پر اکتفاء کریں گے جو حالیہ مہینوں میں ہمارے تجزیوں اور تناظر کو درست ثابت کرتے ہیں کہ مغرب کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود یوکرین میں جنگی صورتحال ہر گز وہ نہیں ہے جو بتائی جا رہی ہے، کیف کے برعکس اصل فیصلہ ساز واشنگٹن ہے، ”مغربی اتحاد“ جیسا دکھایا جاتا ہے ویسا نہیں ہے اور امریکہ مسلسل اپنے ”دوستوں“ کی جاسوسی بھی کر رہا ہے۔۔ اگرچہ ہمیں ان 100 صفحات پر مشتمل دستاویزات کا ثبوت درکار نہیں تھا۔