دنیا بھر میں تیل اور گیس کا بحران: سرمایہ داروں کی منافع خوری، محنت کشوں کی ذلت

سرد موسمِ سرما کی آمد ہے۔ نیٹو اور روس کے سامراجی تصادم کا پورا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں کے اوپر پڑ رہا ہے جو اس کی قیمت آسمان کو چھوتے بلوں اور ٹھنڈے گھروں کی صورت چکا رہے ہیں، جبکہ مٹھی بھر گیس اور تیل کے بڑے بڑے کاروباری اشخاص منافعوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اگست کے مہینے میں مستعفی شدہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کیف کا ایک آخری دورہ کیا، جہاں اسے یوکرین کی (خود غرضانہ اور لالچی) حمایت کے بدلے ’آرڈر آف لبرٹی‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اپنی اعزازی تقریب کے موقع پر اس نے کہا: ”ولادیمیر پیوٹن کی شیطانیت کی قیمت ہم توانائی کے بِلوں کی صورت ادا کر رہے ہیں، مگر یوکرین کے لوگ اپنے خون کی صورت ایسا کر رہے ہیں۔“

جانسن کے بعد وزیراعظم بننے والی لِز ٹرس نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یوکرین کے دفاع کی خاطر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ برداشت کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اسی طرح، یورپی کمیشن چیف ارسلا وان ڈیر لیین نے ریوٹرز (Reuters) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پیوٹن کی مخالفت ”کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے، مگر ہماری آزادی، بین الاقوامی امن اور نظم و ضبط، اور جمہوریت کے دام نہیں لگ سکتے۔“ یورپی بورژوازی وحشی اور جابر روس کے اوپر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں توانائی کی بڑھتی قیمتوں کا شکار ہو کر امید کر رہے ہیں کہ سعودی عرب کے جانے مانے جمہوریت پسندوں کے در پر جا کر وہ قلت کو قابو کر لیں گے!

حکمرانوں کی لفاظی کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے: ہماری ’بے دام آزادی‘ کی ’بیش بہا قیمت‘ کون چکائے گا؟

عدم اطمینان کی سردیاں

یورپ کے اندر گیس کی سٹینڈرڈ قیمتوں میں 12 مہینوں (اگست 2021ء تا اگست 2022ء) کے دوران 550 فیصد کا دیوہیکل اضافہ ہوا ہے۔ حکومتیں اس شدت کو کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہیں: جن میں روسی درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے اربوں ڈالر کا خرچہ، توانائی کی مقامی کمپنیوں کو بیل آؤٹ پیکیجز کی فراہمی، اور نرخ نامے کا تعین شامل ہے۔

مجموعی طور پر، توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک نے 500 ارب یورو مختص کیے ہیں: جو قرضوں کے پہاڑ میں مزید اضافے کا سبب ہے۔ ان کوششوں کے باوجود، عوام کے اوپر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

پچھلے سال کی نسبت جرمن گھرانوں کے گیس کے بلوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ بنیادی ضروریات کے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کریں، اور توانائی کے ذخائر برقرار رکھنے کے لیے سرکاری عمارات میں سے گرمائش کی سہولت ختم کر دی گئی ہے۔

اس دوران، قیمتیں کم کرنے کی کوشش میں مکان مالکان توانائی کے حوالے سے نئی شرائط لاگو کر رہے ہیں۔ جرمن ریئل اسٹیٹ گروپ وونوویا نے کہا ہے کہ وہ کرایہ داروں کے ہیٹنگ سسٹم کو رات 11 سے صبح 6 بجے کے دوران کم درجہ حرارت پر لائیں گے تاکہ ”گیس کی حتیٰ الامکان بچت کر سکیں“۔

دیپلدیزوالڈ قصبے میں کچھ کرایہ داروں کو صبح 8 سے 11 (جو اکثریتی لوگوں کا کام پر جانے کی تیاری کا وقت ہوتا ہے)، دوپہر 1 سے شام 5، اور رات 9 بجے کے بعد گرم پانی کی سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

موسمِ سرما کے انتہائی سرد مہینوں کے دوران لازمی لوڈشیڈنگ کے امکانات بڑھنے کے باعث یورپی حکومتیں عوام کو ’اپنے حصے کا بوجھ اُٹھانے‘ پر آمادہ کرنے کے لیے مہم چلا رہی ہیں: جو انہیں تھرموسٹیٹ کا درجہ حرارت کم کرنے، لائٹیں بند کرنے، اور اپنے کپڑے ہوا میں سکھانے وغیرہ کی تلقین کر رہی ہیں۔

معاشی طور پر مضبوط آبادی کے ایک چھوٹے حصے کے نزدیک توانائی کے استعمال میں کمی کرنا شاید حب الوطنی کا نمونہ ہو۔ مگر اکثریت کے لیے یہ معاشی مجبوری ہے۔

زاکسن (جرمنی کے انتہائی سرد علاقوں میں سے ایک) سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ کارل نے ’دی لوکل‘ کو وضاحت کی کہ وہ موجودہ بحران سے پہلے بھی توانائی کا استعمال کم کیا کرتا تھا، اور اس میں مزید کچھ زیادہ کمی کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ موجودہ قیمتوں کے پیشِ نظر روزانہ ہیٹنگ کا استعمال کرنا سب کے لیے شاید ممکن نہ رہے گا۔

اس کا کہنا تھا، ”ہمیں ماہانہ 200 یورو کی بچت ہوا کرتی تھی۔ مہنگائی اور تیل کی قیمتوں کے باعث وہ ختم ہو گئی۔ میری تنخواہ میں اضافہ ہوا تھا مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا۔ ابھی ہم مشکل سے محض بنیادی ضروریات ہی پوری کر پاتے ہیں۔“

گرمائش کی مرکزی سہولت کے اخراجات برداشت سے باہر ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد شدید سردی میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرے گی۔

برطانیہ کے اندر 2 ہزار لوگوں پر مشتمل ہونے والے ایک سروے سے پتہ چلا کہ ان میں سے 23 فیصد پورے موسمِ سرما کے دوران ہیٹنگ سسٹم مکمل طور پر بند رکھیں گے۔ بڑھتے ہوئے بلوں کا بوجھ سب سے زیادہ ایڈوانس میں بل بھرنے والے اور اجتماعی ہیٹنگ سسٹم استعمال کرنے والے 10 فیصدی غریب ترین گھرانوں کے اوپر پڑ رہا ہے، جو گیس اور بجلی کے اوپر اپنے کُل بجٹ کا 11 فیصد خرچ کرتے ہیں، جبکہ اس حوالے سے ان کے مقابلے میں امیروں کے اخراجات 4 فیصد بنتے ہیں۔

ایک کمپئین گروپ ’فیول پاورٹی ایکشن‘ نے پیشگوئی کی ہے کہ اس ساری صورتحال کا نتیجہ ”ٹھنڈے گھروں کے اندر ہزاروں اموات“ کی صورت نکلے گا۔

اس کے علاوہ توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں کے اثرات ان مقامی شعبوں کے اوپر بھی پڑ رہے ہیں جو پہلے سے ہی برسوں سے جاری عوام دشمن پالیسیوں کا شکار تھے۔ سکول، لائبریریاں، بچوں کی نرسریاں اور قومی شعبہ صحت جیسی سروسز ممکنہ طور پر ”تباہ کن“ سردیوں کا شکار ہوں گی، جس کے دوران انہیں محض توانائی کے اخراجات پورا کرنے کے لیے پہلے سے ہی کم بجٹ میں لاکھوں کروڑوں کی مزید کٹوتیاں کرنی ہوں گی۔

ان حالات سے امیروں پر بالکل فرق نہیں پڑے گا، جو توانائی کے بڑھتے بلوں کو برداشت کر سکتے ہیں، نجی علاج کی سہولت استعمال کر سکتے ہیں، اور نرسریاں بند ہونے کی صورت اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کرائے پر نوکر رکھ سکتے ہیں۔

اکثریت کی بد حالی، مالکان کی چاندی

ایک جانب نچلا طبقہ بد حالی میں گھرا ہے، جبکہ دوسری طرف توانائی کی بڑی کمپنیوں کی گویا چاندی ہو گئی ہے۔ پچھلے سال، برٹش پٹرولیم (بی پی) کے چیف ایگزیکٹو برنارڈ لونی نے توانائی کے کاروبار کو ”پیسوں کی مشین“ کہا تھا۔ یوکرین جنگ کے باعث تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد یہ مشین ایسے منافعے پیدا کر رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

یوکرین کے اوپر روسی حملے کے بعد، قلت کے خطرات تیل اور گیس کی ہول سیل قیمتوں میں شدید اضافے کی وجہ بنی، جو توانائی کی بڑی کمپنیوں اور ان کے شیئر ہولڈرز کے لیے بڑی خوشخبری تھی۔ اپریل اور جون 2022ء کے دوران بی پی نے 6.9 ارب پاؤنڈ منافع کمایا، جو 14 سالوں کا سب سے بڑا سہ ماہی منافع تھا، جبکہ ایکوینور، ٹوٹل انرجیز، سینٹریکا اور شیل جیسی کمپنیوں نے بھی اسی طرح کے منافعے کمائے۔

مگر توانائی کے اوپر قابض موٹے خنزیر ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے درد کو سمجھ سکتے ہیں!

اگست میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران جناب لونی نے اپنی خوشی کو قابو کرتے ہوئے کہا: ”مہنگائی کے حوالے سے ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ لوگ بہت بہت مشکل حالات کا شکار ہیں، صرف برطانیہ کے اندر نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہی صورتحال ہے۔ ہم سمجھ سکتے ہیں، ہمیں احساس ہے۔“

اندازوں کے مطابق برطانیہ کے اندر گیس اور بجلی کی کمپنیاں اضافی منافعے کمائیں گی جو اگلے دو سالوں میں تقریباً 170 ارب پاؤنڈ کی رقم بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لونی ان منافعوں سے اپنی جیب بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔

در حقیقت، لونی اور اس کا طبقہ کچھ نہیں سمجھ رہا: وہ ان اربوں لوگوں سے کسی الگ دنیا میں رہتے ہیں جن کی زندگی وہ اپنی خونخوار منافع خوری سے برباد کر چکے ہیں۔ مہنگائی کے موجودہ بحران سے پہلے ہی یہ گدھ ریاستی خزانوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے، محض 2020ء میں کوئلہ، پٹرولیم اور قدرتی گیس کی مد میں 5.9 ٹریلین ڈالر (جو عالمی جی ڈی پی کا 6.8 فیصد بنتا ہے) کی سبسڈیاں دی گئیں۔

اور آج بورژوا سیاستدانوں کے پاس کوئی حل نہیں، جو سرمایہ داروں کے نئے دیوہیکل منافعوں کو ہاتھ تک نہیں لگا رہے۔

یورپی کمیشن نے توانائی کے منافعوں پر 33 فیصد اضافی ٹیکس لگانے، اور ان منافعوں کو گھرانوں اور کاروباروں کی مدد کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ مگر آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق ”آسمان کو چھوتے توانائی کے بلوں کا سامنا کرنے والے عام لوگوں“ کی زندگی میں اگر کوئی بہتری لانا مقصود ہو تو کمیشن کو 50 سے 90 فیصد تک کا ٹیکس لگانا پڑے گا۔

اس دوران، توانائی کی کمپنیاں یورپی منڈی کے اندر سال کے ان دنوں میں معمول کے منافعوں سے 5 گنا زیادہ منافعے کما رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فوری طور پر تمام رکن ممالک کو اضافی ٹیکس لگانے کی تاکید کی، جس نے ایندھن کی صنعت پر الزام لگایا کہ وہ ”سبسڈی اور اضافی منافعوں کی مد میں اربوں ڈالر کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ گھرانوں کے بجٹ سکڑ رہے ہیں اور ہمارا سیارہ جل رہا ہے۔“

وہ غلط بیانی نہیں کر رہا۔ مگر محض توانائی کمپنیوں کے دیوہیکل منافعوں کے اوپر ٹیکس لگانے سے ماحولیاتی یا مہنگائی کے بحران پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ان دونوں کی وجہ ضروری وسائل کی نجی ملکیت ہے، جن کو انسانیت کے فائدے کی بجائے منافعوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

کئی بورژوا سیاستدان تو توانائی کمپنیوں کے مالکان کی اس لوٹ مار پر ٹیکس لگانے سے بھی کترا رہے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم لز ٹرس نے اضافی ٹیکس لگانے کے خیال کو مسترد کیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ اس سے ”سرمایہ کاروں کو غلط پیغام ملے گا“۔

اس کی جگہ اس نے 130 ارب پاؤنڈ کے امدادی پیکج کا اعلان کیا، جس میں گھرانوں اور چھوٹے کاروباروں کے توانائی بلوں کو سالانہ 2 ہزار 500 پاؤنڈ تک محدود رکھنا شامل ہے (2021ء میں 764 پاؤنڈ کی حد مقرر تھی)۔ یہ بیل آؤٹ پیکج نئے قرضوں کے ذریعے سرمایہ داروں کی مدد کرے گا، جن کی واپسی کی مدت اگلی دو دہائیاں ہوں گی۔

یہ کوئی زیادہ حیران کن بات نہیں کہ توانائی مالکان کے منافعوں کو بچانے کے لیے ٹرس اتنی زحمت کر رہی ہے۔ در حقیقت، اس نے کارپوریٹ دنیا میں قدم رکھتے ہوئے ابتدائی تجربہ شیل کمپنی میں کام کرتے ہوئے حاصل کیا تھا جب وہ چارٹرڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹ کا کورس کر رہی تھی، اور اس کی سیاسی کمپئین کے لیے سب سے بڑا عطیہ، 1 لاکھ پاؤنڈ، جیمز ہَے کی بیوی نے دیا تھا جو بی پی کا سابقہ ایگزیکٹو اور اپنی کاروباری سلطنت کا بادشاہ ہے۔

اس نے ای ڈی ایف انرجی کمپنی کے سابقہ ترغیب کار مائیکل سٹاٹ کو کاروباری تعلقات کا سربراہ کے عہدے پر فائز کیا ہے۔ کم از کم یہ تو پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سارے امیر ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھ سکتے ہیں!

ٹرس برطانیہ کی توانائی کمپنیوں پر نوازشات کی بھرمار کر کے توانائی کے بحران سے نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بحران کے یہ سارے ’حل‘، جو دہائیوں تک عوام دشمن پالیسیوں اور ماحولیات کی بربادی کا راستہ ہموار کریں گے، کے باوجود محنت کشوں کو توانائی کے دیوہیکل بلوں کا سامنا ہے جبکہ سردی کے مہینے قریب آتے جا رہے ہیں۔

خوش قسمتی سے، کچھ تیس مار خان کروڑ پتیوں نے توانائی بچانے کے بڑے اعلیٰ اور دو ٹوک نسخے پیش کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، جانسن نے کیف کے دورے سے واپس آ کر ایک پریس کانفرنس میں یہ شاندار خیال پیش کیا:

”اگر آپ کے پاس پرانی کیتلی ہو جو ابالنے میں زمانے لگا دیتی ہے، اس کی جگہ نئی کیتلی خریدنے میں شاید آپ کا 20 پاؤنڈ کا خرچہ ہوگا۔۔۔مگر نئی کیتلی خریدنے کی صورت میں آپ ہر سال بجلی کے بل میں 10 پاؤنڈ کی بچت کریں گے۔“

پورے 10 پاؤنڈ کی بچت! اس کو خرچ کرنے میں ہمیں کفایت شعاری سے کام لینا ہوگا۔

سابقہ ممبر پارلیمنٹ ایڈوینا کری، جو 80ء کی دہائی میں سالمونیلا بیکٹیریا سے متاثر انڈوں کے خطرات کے حوالے سے پورے ملک کے اندر خوف و ہراس پھیلانے کے لیے بہتر جانی جاتی ہے، نے اضافی گرمائش روکنے کے لیے ریڈی ایٹر کے پیچھے ٹِن کا ورق چڑھانے کا مشورہ دیا۔

اور اگر ان تجاویز سے آپ کی تسلی نہ ہوئی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ آئی ٹی وی چینل کے شو ’دِس مارننگ‘ پر کال کر سکتے ہیں، جہاں میزبان ہالی ویلوبی اور فلپ شوفیلڈ ایک بڑے پرائز وہیل کو گھما کر مقابلے میں حصہ لینے والوں کو توانائی کے ماہانہ بل کا خرچہ جیتنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ایک جانب مٹھی بھر ارب پتیوں کی دولت مزید بڑھ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف عوام اپنی بقا کی جدوجہد تو کر ہی رہے ہیں مگر ایسا لگتا ہے جیسے اشرافیہ ان کا مذاق اڑا رہی ہے۔ توانائی کے بحران پر تحقیر آمیز، غیر مؤثر اور انتہائی ذلت آمیز ردّعمل عوام کے اُبلتے غم و غصّے میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

سامراجیت، آسمان کو چھوتی قیمتیں اور بغاوت

اور اس غم و غصّے میں آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں شدت لا رہی ہے۔ مثلاً، حالیہ ہفتوں کے دوران تیل کی ہول سیل قیمت گری ہے، جو فروری میں فی بیرل 140 ڈالر تھی اور 26 ستمبر کو 110 ڈالر۔ یہ روسی تیل کی بجائے اس کا متبادل اپنانے کے باعث ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ تیل کی دیگر کمپنیوں کی سپلائی میں اضافے کی صورت ہو رہا ہے جو عالمی مانگ میں کمی لا رہی ہے۔

مگر تیل سپلائی کرنے والے بڑے کاروباریوں کو پٹرول پمپوں کے اندر قیمتوں میں یہ کمی گوارا نہیں ہے۔ برطانیہ کے رائل آٹو موبائل کلب کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ”جولائی غیر ضروری طور پر ڈرائیوروں کے لیے سخت مہینہ بن گیا تھا کیونکہ چار بڑے سپر مارکیٹ اپنی قیمتوں میں مناسب حد تک کمی نہیں کرنا چاہ رہے تھے، جو پٹرول اور ڈیزل کی ہول سیل قیمت میں مسلسل اور بڑے پیمانے کی کمی کا اظہار ہے۔“

دوسری جانب سپر مارکیٹ کی بڑے چینز نے تیل کی ریفائنریوں کے اوپر ان کے لیے ہول سیل قیمتوں میں کمی نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ جو بھی ہو، نتیجہ ایک ہے: برطانوی ڈرائیوروں کے لیے فُل ٹینکی پٹرول کی اوسط قیمت پہلی مرتبہ 100 پاؤنڈ سے تجاوز کر چکی ہے، اور کچھ لوگ عوام کے بلبوتے پر بھرپور منافعے کما رہے ہیں۔

اور عالمی سطح پر، امیر ترین سامراجی ممالک اپنا معاشی و سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے غریب ممالک کو اپنے حریفوں سے سستے تیل کی خریداری سے روک رہے ہیں۔

مثلاً، ستمبر میں انڈونیشیا نے توانائی کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہونے کے بعد سبسڈی کا خاتمہ کر دیا، جس کا عوام نے شدید ردعمل دیا۔

روس نے منڈی کی قیمت سے 30 فیصد کم قیمت پر تیل فروخت کرنے کی پیشکش کی مگر امریکہ نے دھمکی دی کہ مغربی خدمات پر انحصار کرنے والے ممالک اگر جی 7 (G7) کے مقرر کردہ نرخ نامے سے کم قیمت پر روسی تیل خریدیں گے تو ان کے اوپر پابندیاں لگائی جائیں گی۔ مطلب توانائی کے اوپر دو سامراجی قوتوں کی جنگ کے بیچ انڈونیشیا کے عوام پستے جا رہے ہیں۔

ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ توانائی کی قیمتوں میں شدید اضافے نے کس طرح سری لنکا، پاکستان، بنگلہ دیش اور پاناما وغیرہ جیسے ممالک کے اندر عوامی ردعمل کو اشتعال دیا۔ یہ ردعمل یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں دیکھنے کو ملے گا کیونکہ توانائی کا بحران کچھ کم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اس بحران کا آغاز دراصل روس یوکرین جنگ سے قبل ہی ہو گیا تھا، جس نے مثال کے طور پر جنوری میں قزاقستان کی بغاوت کو بھڑکایا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 21 نومبر 2021ء اور اگست 2022ء کے پہلے ہفتے کے بیچ 138 ممالک کے اندر توانائی کے حوالے سے 10 ہزار احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

یورپ کے اندر بھی حالات اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگست میں اطالوی شہر ناپولی کے اندر سینکڑوں شہریوں نے سٹی ہال (مقامی انتظامیہ کا دفتر) کے باہر اپنے توانائی کے بل جلا کر قیمتوں میں شدید اضافے کے خلاف احتجاج کیا، جن کا نعرہ تھا: ”بل نہیں جمع کرائیں گے! اب ہنگامہ مچائیں گے!“

چیک جمہوریہ کے اندر توانائی کی قیمتیں قوتِ خرید کے تناسب سے یورپ بھر میں حالیہ طور پر سب سے زیادہ ہیں۔ وہاں کے وزیراعظم پیٹر فیالا نے اس حوالے سے واحد ایکشن لوگوں کو سردیوں میں سویٹر پہننے کا مشورہ دیتے ہوئے لیا۔

حکمران طبقے کے ان نمائندوں کے تکبر کا جواب چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کی سڑکوں پر عوامی احتجاج کر کے دیا گیا جس میں، سیاسی الجھن کے باوجود، حکومت کی اس غفلت اور نیٹو کی پراکسی جنگ میں ملوث ہونے کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا۔ یہ حالات کے اندر بہت بڑی تبدیلی کا اظہار ہے، کیونکہ جنگ کے شروع میں چیک کے اندر بہت بڑے پیمانے پر یوکرین کی حمایت موجود تھی۔

مسلسل اور غیر متوقع تبدیلیاں

یہ بدلتا ہوا رویہ کوئی زیادہ حیران کن نہیں ہے: عوام قربانیاں دینے سے اُکتا چکے ہیں جبکہ ان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے انتشار سے کچھ غنڈے منافعے کماتے جاتے ہیں۔ یہ منافقت ہضم کرنا نا ممکن ہے۔

”دو سالوں کے لاک ڈاؤن کے بعد اب توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے،“ جرمن دارالحکومت میونخ کی رہائشی 54 سالہ فیونا نے کہا۔ ”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم مستقل طور پر مسلسل اور غیر متوقع تبدیلیوں میں جی رہے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں زیادہ سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، مگر ہماری غربت میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔“

یہ جملے فصاحت کے ساتھ کروڑوں لوگوں کے موجودہ جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ سماجی حالات طبقاتی جدوجہد سے حاملہ ہیں، اور حکمران طبقے کو اس حقیقت کا ادراک ہے۔ مشاورتی کمپنی ویرسک میپل کرافٹ نے 2 ستمبر کو ایک رپورٹ میں لکھا:

”دنیا کو کبھی نہ دیکھے جانے والے سماجی عدم استحکام کا سامنا ہے جبکہ تمام ممالک کی حکومتیں ضروری خوراک کی اشیاء اور توانائی کی قیمتوں کے اوپر پڑنے والے افراطِ زر کے اثرات کی وجہ سے مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔۔۔

”چونکہ حکومتیں خرچے کر کے بحران سے نہیں نکل پا رہیں لہٰذا حکومت مخالف احتجاجوں کا جواب جبر کے ذریعے دینے کے امکانات زیادہ ہیں۔ مگر جبر مزید مسائل کو جنم دیتا ہے، جب بڑھتی ہوئی مایوسی کے ساتھ غم و غصّے کے شکار عوام کے پاس سٹیٹس کو سے جان چھڑانے کے رستے محدود ہوتے جاتے ہیں۔“

کیا خوب کہا ہے۔ عوام اس شش و پنج سے اُکتا چکے ہیں کہ اپنا کھانا گرم کریں یا اپنے گھر، جبکہ توانائی کے منافع خور اپنے اربوں کی گنتی میں مگن ہیں۔ بربریت میں سماج کا دھکیلا جانا خاموشی سے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ بہت ہو گیا۔